سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججز نے وزیرِ اعظم عمران خان کے عدلیہ سے متعلق ریمارکس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے پیر کو ریفرنس کی سماعت کے دوران استفسار کیا کہ کیا وزیرِ اعظم کو عدلیہ پر اعتماد نہیں اور کیا انہیں غیر ذمہ دارانہ بیانات سے نہیں روکا جاسکتا؟
خیال رہے کہ چند روز قبل پنجاب کے شہر کمالیہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف ججز کو ساتھ ملا رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ10 سے 15 اراکین منحرف ہو جائیں تو یہ سسٹم کو مذاق بنانے والی بات ہے۔ 15 لوگ حکومت بدل کر دوبارہ الیکشن لڑیں تو میوزیکل چیئر چلتی رہے گی۔
ریفرنس کی سماعت کرنے والے پانچ رُکنی بینچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
سندھ ہاؤس پر حملہ کے ملزمان کی گرفتاری کا حکم
سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل کا آغاز کیا، تاہم ان کے ساتھ ہی وہاں موجود ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سندھ ہاؤس حملے کا معاملہ اٹھا دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل نہیں کی گئی۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا ہم اب ایف آئی آر پر سماعت شروع کر دیں۔اس نکتے پر سماعت شروع کی تو تین دن لگ جائیں گئے۔انہوں نے ہدایت کی کہ سندھ ہاؤس معاملہ پر حکومت قانونی راستہ اپنائے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ اس معاملہ پر دہشت گردی کی دفعات عائد نہیں ہوتیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ حکومت سیشن کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، مناسب ہوگا کہ متعلقہ فورم ہی اس کا فیصلہ کرے ،اب تک جو دفعات لگائی گئی ہیں ان پر ایکشن لیں ، انہوں نے کہا کہ بچگانہ دفعات پر حملہ آوروں نے ضمانتیں کروا لیں ،کیا کوئی نا قابل ضمانت دفعات لگائی ہیں؟
اس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ایک دفعہ ناقابلِ ضمانت ہے ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ناقابلِ ضمانت دفعات پر گرفتاریاں کیوں نہیں ہوئیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس بارے میں آئی جی اسلام آباد کو بلا لیتے ہیں۔ لیکن چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی کو کہیں کہ اپنا کام کریں ، یہ ہمارا کام نہیں کہ ہدایات دیں، کل اس معاملے پر جامع رپورٹ دیں۔ عدالت نے سندھ ہاؤس پر حملے میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔
آرٹیکل 63 اے میں کیا کسی قسم کی کوئی کمی ہے؟جسٹس جمال مندوخیل
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سوال ہوا تھا جو آئین میں نہیں لکھا ہوا وہ عدالت کیسے پڑھے۔ انہوں نے کہا کہ اس نکتے پر سپریم کورٹ 2018کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ عدالت نے تمام امیدواروں سے کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیانِ حلفی مانگا۔ قانون میں بیان حلفی نہیں تھا لیکن عدالتی حکم پر لیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کو لگتا ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی قسم کی کمی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کو اکیلا نہیں پڑھا جاسکتا ۔
چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتی فیصلے میں انتحابات کی ساکھ اور تقدس کی بات کی گئی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے جماعتی ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں، کوئی پارٹی کے ساتھ نہیں چل سکتا تو مستعفیٰ ہو سکتا ہے ۔پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والا تاحیات نااہل ہونا چاہیے ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 63 اے کو 62 ون ایف کے ساتھ کیسے جوڑیں گے، کیا کسی فورم پر رشوت لینا ثابت کیا جانا ضروری نہیں، رشوت لینا ثابت ہونے پر 62 ون ایف لگ سکتا ہے ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی قانونی طور پر بددیانتی ہے، قانونی بددیانتی پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منحرف رکن اگر کسی کا اعتماد توڑ رہا ہے تو خیانت کس کے ساتھ ہو گی ؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سب سے پہلے خیانت حلقے کی عوام کے ساتھ ہو گی ووٹر اپنا ووٹ ڈال کر واپس نہیں لے سکتا ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا مستعفی ہونے پر کوئی سزا ہے ؟ اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ کوئی مستعفی نہیں ہو رہا یہی تو مسئلہ ہے ۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کسی سیاسی بندے کا ذکر نہ کریں ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، عدالت کے سامنے صدارتی ریفرنس ہے اسی تک رہیں ۔
پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا ہوتے ہیں: چیف جسٹس
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا 63 اے کے نتیجے میں سیٹ خالی ہونا کافی نہیں، جسٹس اعجاز نے کہا کہ پارٹی سے انحراف از خود مشکوک عمل ہے ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کے نتائج بھگتنا ہوتے ہیں ، آرٹیکل 63 اے میں لکھا ہے کہ رکنیت ختم ہو جائے گی۔ آپ نااہلی کی مدت کا تعین کروانا چاہتے ہیں ،آرٹیکل 62 ون ایف کے لیے عدالتی فیصلہ ضروری ہے،آرٹیکل 63 میں نااہلی دو سے پانچ سال تک ہے ،قرض واپس کرنے پر نااہلی اسی وقت ختم ہو جاتی ہے۔
وزیراعظم کو عدلیہ پر اعتماد نہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل
سماعت کے دوران وزیرِِ اعظم عمران خان کی کمالیہ میں تقریر کا حوالیہ بھی دیا گیا جس میں انہوں نے نواز شریف پر الزام عائد کیا کہ وہ ججز کو ساتھ ملا رہے ہیں۔ اس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ وزیرِاعظم نے کمالیہ کی تقریر میں کیا کہا کہ ججز کو ساتھ ملایا جا رہا ہے؟ کیا آپ نے وزیرِاعظم کی بات کا نوٹس لیا ہے؟ عدالتی سوالات کو کس طرح لیا جاتا ہے۔ اس کو بھی دیکھیں۔وزیرِاعظم کے یہ الفاظ میں نے سوشل میڈیااور ٹی وی پر سنے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی قائدین کو علم ہونا چاہیے کہ زیر التوا مقدمات پر بات نہ کریں۔'اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تقاریر سنتا نہیں اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بھی کارروائی پر گفتگو احتیاط سے کرنا چاہیے،اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو بیانات اور تقاریر سے متاثر ہونا بھی نہیں چاہیے وزیرِ اعظم کو عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔
الیکشن قوانین آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتے: اٹارنی جنرل
الیکشن ایکٹ کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بارے میں اٹارنی جنرل کی دلیل پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جس فیصلے کا آپ نے حوالہ دیا الیکشن سے پہلے کا ہے۔الیکشن سے پہلے کا قانون بعد میں کیسے لاگو کر دیں۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن قوانین آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جسٹس جمال نے کہا کہ پارٹی سربراہ ڈیکلریشن دے تو الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنے دیں۔ قانون میں طریقہ واضح کردیا ہے۔ تو آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کسی کا سچ میں ضمیر جاگ گیا ہو۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ آئے گا تو دیکھا جائے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ طریقۂ کار سے متعلق کوئی سوال ریفرنس میں نہیں پوچھا۔سوال نااہلی کی مدت اور ووٹ شمار ہونے کے ہیں۔
جسٹس مظہرعالم نے سوال کیا کہ نااہلی کی مدت کا تعین کس بنا پر ہو گا۔
جسٹس جمال نے کہا کہ کیا آپ مستقبل کے لیے ریفرنس لائے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی اجلاس میں کیا ہو رہا ہے عدالتی کاروائی پر فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اصل نکتہ نااہلی کا ہے اس پر سب ہی آپ کو سننا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نااہلی کی مدت کے حوالے سے آرٹیکل 63 اے نیوٹرل ہے۔
جسٹس اعجاز نے کہا کہ آرٹیکل 63اے کی خلاف ورزی کا سسٹم پر براہ راست اثر پڑتا سکتا ہے۔10 سے 15 اراکین منحرف ہو جائیں تو یہ سسٹم کو مذاق بنانے والی بات ہے۔ 15 لوگ حکومت بدل کر دوبارہ الیکشن لڑیں تو میوزیکل چیئر چلتی رہے گی۔اس نکتے پر مطمئن کریں کہ منحرف ہونے سے سسٹم کو خطرہ ہو گا اور سنگین جرم ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہارس ٹریڈنگ کو کینسر قرار دیا ہے۔
جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ ایک رکن دوسری جماعت کو فائدہ دیتا ہے۔ تو سسٹم کو خطرہ کیسے ہو گیا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی جماعت اپنے لیڈر کے خلاف عدم اعتماد کر سکتی ہے۔پارٹی خود عدم اعتماد کرے تو کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی۔پارلیمانی پارٹی وزیرِاعظم تبدیل کرنے کا فیصلہ کرے تو پارٹی سربراہ بادشاہ نہیں ہو گا۔پارلیمانی پارٹی آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی کی سفارش کرے تو کیا پارٹی سربراہ روک سکتا ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی سربراہ من پسند افراد کو ڈکلیریشن نہیں دے سکتا، یہ سیاسی فیصلہ ہے جو پارٹی سربراہ نے کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ اصل معاملہ سیاسی نظام کے استحکام کا ہے۔
جسٹس جمال نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت حکومت اپوزیشن کی مدد سے آئی ہے۔ جب تک ایوان خوش ہے کام چلتا رہتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی وزیرِاعظم کو ووٹ نہ دے اور عدم اعتماد بھی ناکام ہو جائے۔تو وزیراعظم کام کرتے رہیں گے۔
کیا تمام جماعتیں 63 اے پر تاحیات نااہلی چاہتی ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل
سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا تمام جماعتیں آرٹیکل63 اے پر تاحیات نااہلی چاہتی ہیں۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس سے قبل کوئی ریفرنڈم نہیں کرایا گیا۔ اپنے پرائے تو سب ہی تاحیات نااہلی چاہتے ہیں۔
منحرف رکن سے لوگ ناراض ہوں گے تو ووٹ نہیں دیں گے: جسٹس جمال خان
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدم اعتماد کامیاب ہو تو منحرف ارکان اور وزیرِاعظم دونوں گھر جائیں گے۔اگر حکومتی جماعت کے اراکین مستعفی ہو جائیں تو بھی اکثریت ختم ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں وزیرِاعظم کو اعتماد کا ووٹ لینا ہو گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوام اپنی رائے کا اظہار صرف ووٹ سے کرسکتے ہیں۔ عدالت عوام کو مدِنظر رکھتے ہوئے تشریح کرے۔
خالد جاوید نے کہا کہ آئین نے جرم کرنے والے اراکین کو پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیا ، فیصلہ عوام پر ہی چھوڑنا ہوتا تو پانچ سال کی نااہلی شامل نہ ہوتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جمہوریت ایک ندی ہے جسے بے وفائیاں آلودہ کرتی ہیں، بے وفائی اور منحرف ہونے کا مثبت مطلب کسی ڈکشنری میں نہیں لکھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے 63 اے شامل کیا گیا، چوری کے کام کی رسید نہیں ہوتی ۔
جسٹس جمال نے کہا کہ ممکن ہے انحراف کرنا غلط کے خلاف ہی ہو، کسی سے غلط کو غلط کہنے کا حق کیسے چھینا جا سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی ، پارٹی سے بے وفائی کو مثبت رنگ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کیس پارلیمانی نظام کے لیے اہم ترین کیس ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو دلائل جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ دوسرے وکلا کو وقت دینا لازمی ہے۔عدالت اپنے تحریری دلائل سے استفادہ کرے گی،کل ایک گھنٹہ آپ اور ایک گھنٹہ دوسرے فریقین کو سنیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مخدوم علی خان اور رضا ربانی کے دلائل سننا چاہیں گے،ابھی تک ہوا میں گھوڑے چل رہے ہیں جمہوریت کے لیے کیا اچھا ہے یہ سوچ کر دلائل دیں۔
جسٹس جمال نے کہا کہ جمہوریت لوگوں سے اور لوگوں کے لیے ہوتی ہے، دیکھنا ہے حکومت بچانی ہے یا پارٹی۔ عوام کا فائدہ کس میں ہے یہ بھی مدِنظر رکھیں گے ۔
سپریم کورٹ میں حکومت کی طرف سے منحرف ہونے والے ارکان کی مدت کی تعیناتی کے لیے دائر ریفرنس کی سماعت جاری ہے اور اٹارنی جنرل خالد جاوید کے دلائل جاری ہیں جس کے بعد اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے وکلا اپنے دلائل پیش کریں گے۔