|
اسرائیلی فوج نے 10 ماہ کی جنگ میں انخلا کے اتنے زیادہ احکامات جاری کیے ہیں کہ غزہ کے بہت سے شہری انسانی ہمدردی کے سکڑتے ہوئے علاقوں میں جگہ یا تحفظ کی تلاش سے مایوس ہو کر اب ان پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے ۔
اسرائیلی فوج نے اگست کے پہلے تین ہفتوں کے دوران، ہوائی جہازوں سے گرائے گئے فلائیرز ، ٹیکسٹ میسجز یا سوشل میڈیا کےذریعے انخلاء کے 11 احکامات بھیجے۔
انہوں نے غزہ کے ڈھائی لاکھ باشندوں سےجن میں سے تقریباً سبھی کم از کم ایک بار پہلے ہی بے گھر ہوچکے تھے، اپنی پناہ گاہیں چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعرات کو جنوبی صوبے خان یونس میں بھیجے گئے ایسے ہی ایک حکم میں لکھا تھا " اسرائیلی فوج اس علاقے میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف طاقت کے ساتھ کارروائی کرے گی۔ آپ کی حفاظت کے لیے، ہم آپ سے فوری طور پر انخلا پر زور دیتے ہیں۔"
ہیثم عبدلال نے اے ایف پی کو بتایا، "جب بھی ہم کسی جگہ پہنچتے ہیں، ہمیں دو دن بعد انخلا کا نیا حکم ملتا ہے۔ یہ جینے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔"
45 سالہ آمنہ ابو دقعہ نے کہا کہ اسے دوبارہ نقل مکانی کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، کیوںکہ بہت کم محفوظ پناہ گاہیں باقی رہ گئی تھیں ۔
پانچ بچوں کی بے گھر ماں نے پوچھا " آخرجائیں کہاں ؟" ۔
اس نے کہا "میں فی الواقع سڑک پر رہتی ہوں ۔ میرے پاس گدھا گاڑی کرائے پر لینے کے لیے 500 شیکل ($133) نہیں ہیں۔ اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں کہاں جاؤں گی،"
" کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے، ہر جگہ ہوائی حملے ہو رہے ہیں۔"
اب ہم کہاں جائیں گے؟
اسرائیلی انخلاء کے احکامات میں اضافے سے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کی اس ناکہ بند علاقے میں امدادی کارروائیاں بھی پیچیدہ شکل اختیار کر لیتی ہیں جہاں امداد اسرائیل کے زیر قبضہ داخلی راستوں سے پہنچتی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر اوچھا نے کہا کہ بدھ کے انخلا کے حکم میں "80 عارضی رہائش گاہیں ہی نہیں " بلکہ امدادی اداروں کے زیر استعمال دفاتر اور گودام بھی شامل تھے۔
ایجنسی نے مزید کہا کہ احکامات سے "پانی کے تین کنویں بھی متاثر ہوئے ... جو ہزاروں لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔"
بعض اوقات، انخلا مرکزی صلاح الدین شاہراہ سمیت جو کہ غزہ کے شمال سے جنوب تک جاتی ہے ،سڑکوں کو بند کرنے کا حکم دیتا ہے۔
SEE ALSO: ’میری کٹی ہوئی ٹانگ میرے خاندان کی طرح جنت میں ہے‘:غزہ کی مریمجب اس شاہرہ کے کچھ حصے انخلا کے احکامات میں شامل ہوتے ہیں تو ٹرانسپورٹ ایک درد سر بن جاتی ہے۔
اوچھا نے کہا کہ ٹرکوں کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ وہ ساحلی سڑک کو استعمال کریں جو صلاح الدین شاہرہ کے متوازی چلتی ہے، جہاں اس وقت عارضی کیمپوں کی بھرمار ہے جونقل و حرکت کو "انتہائی سست اور کبھی کبھی ناممکن" بنا دیتے ہیں۔
ایسے ہی ایک کیمپ میں رہنے والے نرمان البشنیتی نے اے ایف پی کو بتایا: "جب اسرائیلی فوج نے اس سڑک پر قبضہ کر لیا جس پر ہم تھے تھے، تو ہم اپنا خیمہ اور اس کے اندر موجود اپنا سارا سامان وہیں چھوڑ کر سمندر کی طرف بھاگے۔
"اب ہم کہاں جائیں گے؟ ہم صرف یہ ہی کرسکتے ہیں کہ سمندر میں کود جائیں اور مچھلیوں کی خوراک بن جائیں.
متضاد احکامات
جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج نے بے گھر ہونے والوں کے لیے اپنے منصوبوں کی تشہیر کی تھی۔
جنگ کے پہلے ہفتے میں اس نے شمال سے انخلاء کا حکم دینے کے بعد، غزہ کا ایک نقشہ شائع کیا جس کو نمبر شدہ کئی سوبلاکس میں تقسیم کیا گیا تھا، اور المواسی کے جنوبی علاقے کو "انسانی ہمدردی کا علاقہ" قرار دیا تھا۔
فلسطینیوں کو یہ بتانے کے لیے کہ فوجی کارروائیاں کن کن علاقوں میں ہوں گی ، اس کے انخلا کے احکامات میں نمبر شدہ بلاکس شامل ہوتے تھے جن کے سائز عمارت کی آبادی کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتے تھے ۔
لیکن بعض احکامات میں جن بلاکس کے نمبر درج کیے جاتے تھے وہ متعلقہ نقشوں میں انخلا کے بلاکس سے ہم آہنگ نہیں ہوتے تھے جس کی وجہ سے احکامات غیر واضح اور کبھی کبھی تو متضاد ہو جاتے تھے۔
SEE ALSO: قاہرہ میں غزہ جنگ بندی مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے: وائٹ ہاؤساقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق ، انسانی ہمدردی کے زون المواسی میں جہاں جنگ سے قبل فی مربع کلومیٹر علاقے میں 1200 لوگ رہتے تھے اب فی مربع کلومیٹر علاقے میں 30 ہزار اور 34 ہزار کے درمیان لوگ رہتے ہیں ۔اور اس کا محفوظ علاقہ 50 مربع کلومیٹر سے گھٹ کر 41 مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔
غزہ کا زیادہ تر حصہ ایک توسیعی تعمیر شدہ علاقہ ہے، لیکن المواسی میں زیادہ تر علاقے کی یہودی بستیاں تھیں ، جنہیں اسرائیل نے 2005 میں یہاں سے انخلا کرتے وقت مسمار کر دیا تھا ۔
اب یہ علاقہ ایک وسیع ٹینٹ کیمپ بن گیا ہے جس میں انخلا کے ہر نئے حکم کے ساتھ مزید خاندان خیمہ لگانے کے لیے جگہ تلاش کرنے مارے مارے پھرتے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد سے لیا گیا ہے۔