چین پاکستان اقتصادی راہداری کا مرکز گوادر میں 'حق دو بلوچستان' تحریک کا جاری دھرنا چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔ دھرنے کی کوریج کرنے کراچی سے نکلے تو طرح طرح کے خدشات تھے۔ لیکن شہر میں قدم رکھا تو دسمبر کے سرد مہینے میں بھی جہاں موسم نسبتاً معتدل پایا وہیں لوگوں کی ملنساری بھی خوب بھائی۔
دھرنے کے مقام پر صبح مقامی صحافی جاوید بلوچ اور زرخان داد کے ساتھ پہنچے تو وہاں چند درجن ہی لوگ نظر آئے، بتایا گیا کہ دھرنا تو پورٹ روڈ پر گزشتہ 24 روز سے جاری ہے لیکن عام طور پر اس چھوٹے سے شہر میں لوگ شام کو ہی بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔ تو سوچا شاہی بازار کا ہی چکر لگا آئیں۔ شام کو واپس آئے تو واقعی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ جب کہ حق دو بلوچستان تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان تو دھرنے کے اسٹیج کے پیچھے ہی خیمہ لگائے بیٹھے ہیں۔
دھرنے میں لوگوں کی بڑی تعداد کے باوجود کافی منظم طریقے سے بیٹھے ہوئے تھے جب کہ ایک اور اندازہ یہ بھی ہوا کہ یہاں کے لوگ سیاسی شعور بھی خوب رکھتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
مقررین کی تقریروں، خاص طور پر کراچی سے آئے بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے سابق اور عوامی ورکرز پارٹی کے موجودہ رہنما نواب یوسف مستی خان کی تقاریر میں بلوچستان کے حوالے سے تاریخی حوالے دیے جا رہے تھے۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ بلوچستان کے ساتھ وفاق کی جانب سے کیے گئے وعدے وفا نہیں کیے گئے۔ نہ صرف یہ کہ مقرر حوالے دے رہا تھا بلکہ ان تاریخی حقائق کو سمجھنے والے سامعین بھی موجود تھے اور وہ اس کا اظہار اپنی تالیوں اور نعروں سے کر رہے تھے۔ اور اسی 'جرم' کی پاداش میں اگلے روز ہی نواب یوسف مستی خان کو پولیس تھانے لے گئی۔
کچھ روز قبل یہاں جماعتِ اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بھی آ کر مظاہرین سے اظہارِ یک جہتی کیا تھا۔ جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے یہ تاثر بھی لیا کہ اب یہ دھرنا ایک بلوچ تحریک سے سیاسی اور مذہبی جماعت کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔
لیکن دھرنے کو قریب سے دیکھ کر اور اس میں شرکت کرنے والوں کے جذبات سے یہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ گوادر کو سی پیک کا جھومر بنانے، پاکستان کا مستقبل قرار دینے اور ترقی کے دعوؤں کے باوجود یہاں کے لوگوں کی باتوں میں تلخیاں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہیں اور لوگ سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ گوادر میں پانی ملتا نہیں اور اگر ملتا ہے تو پینے کے لائق نہیں، لوڈ شیڈنگ بھی معمول بن چکی ہے۔ گوادر کے رہائشیوں کو اب بھی علاج کے لیے 12 گھنٹوں کی مسافت پر کراچی کا رخ کرنا پڑتا ہے جب کہ اسکولوں اور کالجز کی حالت بھی کوئی خاص نہیں۔ خواتین کی صحت ہو یا ان کے فلاح و بہبود کے لیے ان کے بقول 'نام۔نہاد ترقی' میں ان کے لیے فی الحال کچھ نہیں۔ اور تو اور گوادر کے لوگوں کو ماہی گیری کے لیے بھی جانے میں قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس پر پورے شہر بلکہ ضلعے کی معیشت کا دارومدار ہے۔
اب تک تو یہ احتجاج پر امن رہا ہے لیکن کیا مظاہرین اپنی تحریک کو یونہی پر امن رکھ کر ریاست سے اپنے مطالبات تسلیم کرا پائیں گے، اس سوال کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں ہے۔
مگر ایک بات تو ہے کہ 25 روز سے جاری دھرنے کا یہ تو اثر ضرور دیکھا گیا ہے کہ گوادر کے رہائشیوں کے بقول سیکیورٹی چیک پوسٹس سے گزرتے ہوئے فی الحال غیر ضروری سوالات کا سلسلہ کچھ کم ہوا ہے۔ کھلے سمندر میں غیر قانونی فشنگ ٹرالرز نظر آنا بند ہوئے ہیں جب کہ انتظامی طور پر ڈپٹی کمشنر گوادر، گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی جی اور دیگر افسران کو تبدیل بھی کر دیا گیا ہے۔
لیکن سوال اب بھی وہی ہے کہ کیا ان اقدامات سے اس ذہنیت کو بھی بدلا جا سکے گا کہ ترقی سڑکوں یا کنکریٹ کی تعمیر کا نہیں بلکہ انسانی ترقی اور فلاح و بہبود ہے جس کے لیے شاید سوچ کم ہی پائی جاتی ہے۔
حکومتِ پاکستان اور بلوچستان کا یہ مؤقف رہا ہے گوادر میں ہونے والی ترقی کا لامحالہ فائدہ یہاں کے مقامی افراد کو ہی ہو گا۔ البتہ شہریوں کو درپیش مشکلات کے ازالے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔