دریائے سوات میں طغیانی، آمدورفت بند ہونے پر سینکڑوں افراد کا احتجاج

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں شدید بارشوں کے باعث دریائے سوات میں طٖغیانی سے کئی علاقے زیرِ آب آ گئے ہیں۔

سیلابی پانی بحرین بازار میں بھی داخل ہو گیا ہے جس کی وجہ سے بحرین سے کالام تک آمدورفت معطل ہو کر رہ گئی ہے۔

کالام بحرین اور اپر سوات کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگ بحرین کالام روڈ بند ہونے سے پھنسے ہوئے ہیں۔

درجنوں متاثرین نے بدھ کی سہ پہر مینگورہ شہر میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور بحرین، کالام روڈ جلد کھولنے کا مطالبہ کیا۔

اپر سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی احسان علی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بحرین قصبے کے درمیان سے گزرنے والے دریائے درال خوڑ میں منگل کو شدید طغیانی سے بازار اور ملحقہ گھروں میں پانی داخل ہو گیا۔

اُن کے بقول ملحقہ پہاڑی علاقوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے دریائے سوات میں بھی طغیانی آئی جس کی وجہ سے بحرین بازار اور ملحقہ علاقوں میں سینکڑوں گھر زیرِ آب آ گئے۔


احسان علی نے بتایا کہ دریاؤں میں طغیانی کی اطلاعات ملنے کے فوراً بعد زیادہ تر لوگ مکانات خالی کرکے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے تھے اسی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ 60 سے زیادہ دکانوں کا سامان جزوی طور پر تباہ ہوا ہے۔

مینگورہ، سیدو شریف اور مدین میں سینکڑوں لوگ پھنس گئے

سوات کے مرکزی انتظامی شہر مینگورہ سے تعلق رکھنے وا لے صحافی عیسی خان خیل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دریائے سوات اور دریائے درال خوڑ میں طغیانی سے بحرین سے آگے کالام تک سڑک کا رابطہ ایک بار پھر منقطع ہو گیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کالام اور نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگ اب مینگورہ, سیدوشریف اور مدین میں پھنسے ہوئے ہیں۔

بحرین کے ایک متاثرہ دکان دار عقیل خان نے بتایا کہ درال خوڑ میں طغیانی اور بالائی علاقوں میں شدید بارشوں کے بعد دریائے سوات میں پانی کی سطح بلند ہو گئی ہے اور پانی کے ریلے بحرین بازار اور ملحقہ گھروں میں داخل ہو گئے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ کئی عمارتیں بھی زیر آب آ گئی ہیں جس کی وجہ سے کئی لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوط مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔

عقیل خان نے کہا کہ بحرین کالام روڈ کی بندش سے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے بقول کالام میں پھنسے سینکڑوں افراد کو عید منانے کے لیے صوبے کے دیگر شہروں تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

بدھ تک آمدورفت بحال کرنے کے دعوے

عقیل خان نے کہا کہ مقامی لوگوں کی اپیلوں اور درخواستوں کے باوجود ضلعی انتظامیہ نے ابھی تک سڑک کی بحالی پر کام شروع نہیں کیا ہے۔

تاہم سوات کی مدین تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر محمد اسحاق نے رابطے پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دریاؤں میں طغیانی کے نتیجے میں بحرین سے آگے کالام تک سڑک جگہ جگہ دریا برد ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے سڑک کی بحال کا کام جاری ہے اور ان کی کوشش ہے کہ بدھ کی شام تک آمدورفت اور ٹریفک کا سلسلہ بحال ہو جائے ۔

گزشتہ برس اگست میں بالائی سوات کے علاقے بحرین اور کالام سمیت بہت سے علاقے بھی دریائے سوات میں سیلاب سے متاثر ہوئے تھے۔

کالام اور بحرین میں نہ صرف دریائے سوات کے کنارے آباد سینکڑوں ہوٹل اور دیگر عمارتیں دریاد برد ہوئی تھیں بلکہ بحرین بازار اور آبادی بھی کئی روز تک زیرِ آب رہی تھی۔

موسمیاتی تبدیلیاں سیلاب کی وجہ

ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس سے گلیشیئرز وقت سے پہلے پگھل رہے ہیں۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر عارف شاہ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ سوات اور چترال کو ملانے والے پہاڑی علاقوں میں موجود گلیشیئر بھی گرمی کے باعث پگھل رہے ہیں جو دریائے سوات ، درال خوڑ آر دیگر ندی نالیوں میں طغیانی کا سبب بنتے ہیں۔

ڈاکٹر عارف شاہ نے بتایا کہ رواں برس موسمِ گرما میں درجۂ حرارت معمول سے زیادہ رہنے کی وجہ سے بھی شدید بارشوں کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

جنوری 2023 میں جنیوامیں اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام ہونے والی کانفرنس میں بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔

ڈاکٹر عارف شاہ کے مطابق ماہرین نے بار بار ان علاقوں میں سیلاب آنے سے مقامی آبادی کو محفوظ رکھنے کے لیے نئے منصوبے بنانے پر زور دیا ہے۔

دوسری جانب سوات کے بعض مقامی افراد کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد متاثر علاقوں میں ابھی تک بحالی کے منصوبے مکمل نہیں ہوئے جس کی وجہ سے معمولی بارش بھی دریائے سوات میں طغیانی کا باعث بن جاتی ہے۔