پاکستان میں انتخابات کے انعقاد پر سیاسی اتفاقِ رائے کے لیے حکمراں اتحاد اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے مابین مذاکرات کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ اطلاعات کےمطابق مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ (ن) کے اس حوالے سے تحفظات ہیں جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور دیگر اتحادی جماعتیں مذاکراتی عمل آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔
منگل کو اس حوالے سے اتحادی جماعتوں کا اجلاس بھی بے نتیجہ رہا تھا۔ تاہم بدھ کو اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو منانے کی کوششیں جاری ہیں اور بلاول بھٹو زرداری اس ضمن میں اُن سے ملاقات کر رہے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگر سیاسی جماعتیں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے متفق ہو گئیں تو سپریم کورٹ بھی پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے حکم سے متعلق کوئی گنجائش نکال سکتی ہے۔
منگل کی سہ پہر وزیر اعظم ہاؤس میں حکومتی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کا شروع ہونے والا اجلاس رات تک جاری رہا لیکن اس کا کوئی باضابطہ اعلامیہ سامنے نہیں آیا ہے۔
ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں چلنا شروع ہوگئیں کہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں میں پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) مذاکرات کی مخالفت کررہی ہیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور قوم پرست جماعتیں مذاکرات کا آغاز چاہتی ہیں۔
اگرچہ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ان خبروں کی تردید کی اور کہا کہ اجلاس میں ہونے والی مشاورت کا باضابطہ اعلان مشترکہ اعلامیے میں کیا جائے گا لیکن تا حال اس قسم کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوسکا ہے۔
اس کے برعکس پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ڈائیلاگ کے ذریعے ہی مسائل حل ہوں گے۔ بلاول بھٹو کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پیپلز پارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ڈائیلاگ کا راستہ بند نہیں ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ سول سوسائٹی کی جانب سے ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں پر مذاکرات کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان مذاکرات کے لیے سرگرم سول سوسائٹی کے وفد سے ملاقات میں عمران خان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شمولیت کی حامی بھری تاہم نواز شریف نے اس وفد کی ملاقات پر کوئی بیان نہیں دیا۔
اس سے قبل دہشت گردی کے حوالے سے فروری میں حکومت نے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا جس کی تاریخ میں دو بار تبدیلی کے باوجود یہ سیاسی اکٹھ ممکن نہ ہوسکا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف میں فوری مذاکرات کے امکانات محدود دکھائی دے رہے ہیں لیکن ملکی گھمبیر مسائل سے نکلنے کے لیے فریقین کو جلد یا بدیر بات چیت کی طرف ہی آنا ہوگا۔
'حکمراں اتحاد کے پاس اس صورتِ حال سے نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ نہیں ہے'
سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کی رائے منقسم ہے اور ان کے پاس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ بھی نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکمران اتحاد میں شامل مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ (ن) چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے نتیجے میں اگر عمران خان کو کچھ دیا جائے تو ان سے کچھ حاصل بھی کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمن چاہتے ہیں کہ عمران خان اپنے دور حکومت میں کی گئی سیاسی غلطیوں کا اعتراف کریں جو کہ پی ٹی آئی کے لیے سیاسی طور پر ممکن نہیں ہے۔
صحافی و تجزیہ نگار عارفہ نور کہتی ہیں کہ انتخابات کا معاملہ سپریم کورٹ کے بجائے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا یہ عمل بہت پہلے شروع ہو جانا چاہیے تھا، کیوں کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی آئینی مدت کی نفی ہو رہی ہے۔
اُن کے بقول اب بھی مسئلے کا حل مذاکرات ہی ہیں جس کے لیے حکومت و حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں مذاکرات پر اتفاق نہیں کرتی ہیں تو پھر ان کے پاس اپنے ایجنڈے کے لیے گنجائش بہت محدود ہوجائے گی۔
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ بحران میں مبتلا سیاسی صورتِ حال کا حل آخر کیا نکلے گا اور مقتدر قوتیں یا اعلی عدلیہ کا اس صورتِ حال میں کیا کردار ہوگا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ انہیں حکومت و حزبِ اختلاف میں فوری مذاکرات کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں لیکن آئندہ مہینوں میں یہ صورت بنتی دکھائی دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور حزب اختلاف کو مذاکرات تو کرنا ہوں گے تاہم "مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ایک ساتھ کون بٹھائے گا"۔
ان کے بقول اگر فوری مذاکرات کا آغاز نہیں کیا جاتا ہے تو قومی اسمبلی کی اگست میں مدت مکمل ہونے پر نگران حکومت کے قیام کے لیے بھی بات چیت کرنا ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی آخرکار یہی چاہے گی کہ مذاکرات ہوں ورنہ سیاسی بحران سے نکلنے کا دوسرا راستہ سپریم کورٹ سے ہی نکل سکتا ہے، جو ایسا فیصلہ کر سکتی ہے جو حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کو قابلِ قبول ہو۔
عارفہ نور کے مطابق صرف مسلم لیگ (ن) ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی فوری انتخابات نہیں چاہتی ہے جس کی واضح مثال سپریم کورٹ میں وزارت دفاع کی پٹیشن ہے کہ ملک میں صوبائی و قومی انتخابات ایک وقت میں کروائے جائیں۔
ایسے میں وہ کہتی ہیں کہ ملکی سیاسی بحران کو لے کر خدشات میں کمی نہیں آ رہی ہے بلکہ بڑھتے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن وجوہات کی بنا پر پنجاب و خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات التوا میں ڈالے جارہے ہیں کیا ثبوت ہے کہ اکتوبر میں عام انتخابات کے وقت یہ تمام مسائل درپیش نہیں ہوں گے۔