|
بلوچستان کے ضلع گوادر میں لاپتا افراد کی بازیابی اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کا احتجاجی دھرنا ایسے میں جمعرات کو پانچویں روز بھی جاری رہاجب کمیٹی نے اسسٹنٹ کمشنر گوادر کی جانب سے کامیاب مذاکرات کے اعلان کی تردید کی ہے۔
گوادر اور کوئٹہ سمیت بعض دیگر اضلاع میں بھی جمعرات کو بی وائی سی کی کال پر جزوی پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔
دوسری جانب بلوچستان کے علاقوں گڈانی، نوشکی اور تربت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کیخلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بی وائی سی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان مقدمات میں موقف اختیار کیا گیا کہ 28 جولائی کو گوادر میں ’بلوچ راجء مچی‘ اجتماع میں شرکت کے لیے جانے والے کارکنوں نے ریاست مخالف نعرہ بازی کی ہے، مختلف شاہراہوں کو بلاک کیا ہے اور پولیس کی گاڑیوں پر حملہ کیا ہے۔
27 جولائی کو کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر سے بڑی تعداد میں بلوچ یکجہتی کے کاکنوں کو گوادر میں ہونے والے جلسہ عام میں شرکت کے لیے آنے سے سرکاری سطح پر روکا گیا اور قومی شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس کے بعد سے گوادر سمیت کوئٹہ، مکران، قلات اور رخشان ڈویژن میں حالات خراب ہیں۔
ان علاقوں میں گزشتہ پانچ روز سے شاہراہیں بند ہیں۔
اس معاملے پر بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جسٹس شوکت علی رخشانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جمعرات یکم اگست کو گوادر کے ایک شہری نذیر بلوچ کی آئینی درخواست پر وفاقی اور صوبائی سیکریٹری داخلہ اور متعلقہ کمشنرز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
درخواست میں کہا گیا ہے کہ صوبے کے طول و عرض میں راستوں کی بندش سے عوام کو آمدورفت، کاروبار، تعلیم اور صحت میں مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔متعدد مریض، مسافر اور طلبا راستے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خواتین اور بچوں کو دشواریوں کا سامنا ہے
بدھ کو رات گئے بلوچستان حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ بی وائی سی کی قائد ڈاکڑ ماہ رنگ بلوچ سے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں۔
گوادر کے اسسٹنٹ کمشنر جواد زہری کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ کامیاب مذاکرات کے بعد بلوچ یکجہتی نے دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تردید
تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اسسٹنٹ کمشنر گوادر کی جانب سے کامیاب مذاکرات کے اعلان کی تردید کی ہےاورگوادر میں اپنا دھرنا جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سلسلے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قائد ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مذاکرتی کمیٹی کے سامنے ہم نے اپنے مطالبات رکھے ہیں جس میں سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ بلوچ راجء مچی اجتماع میں شرکت کے لیے آنے والے گرفتار افراد کو فی الفور رہا کیا جائے اور ان کے خلاف تمام مقدمات واپس لئے جائیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کےمطابق،"ہمارا دوسرا مطالبہ ہے کہ انتظامیہ نے جن جن مقامات کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا ہے انہیں فوری طور پر کھول دیا جائے۔ جبکہ گوادر کے لوگوں کو بلا وجہ تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اس وقت تک یہ دھرنا جاری رہے گا"۔
انہوں نے کہا کہ اگر انتظامیہ نے ایسا کوئی بھی قدم اٹھایا تو بلوچ راجء مچی کا دھرنا گوادر میں غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا۔
SEE ALSO: بلوچستان: لاپتا افراد کی تعداد میں اضافے کی شکایات پھر بڑھنے لگیںبلوچستان حکومت کا موقف
دوسری جانب بلوچستان حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مذاکرات کا دوسرا دور شروع ہوگیا ہے۔
وزیر داخلہ بلوچستان میرضیاء اللہ لانگو کی صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی کی ملاقات ہوئی ہے۔ ملاقات میں رکن اسمبلی مولاناہدایت الراحمن، کمشنر مکران داؤد خلجی، اور ڈی سی گوادر سمیت دیگر حکام نے بھی شرکت کی ہے۔
مذاکراتی کمیٹی نے موقف اخیتار کیا ہے کہ احتجاج کرنے والوں سے انتظامیہ کی جانب سے مزاکرات کا دوسرا دور جاری ہے اور حکومت بی وائی سی کے مطالبات آئین وقانون کے تحت تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔
رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس میں حکومت کو پیشکش کی ہے کہ اگر گوادر میں روڈ اور انٹرنیٹ نیٹ ورک کھول دیا جائے تو وہ بی وائی سی اور حکومت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
انہوں نےکہا"اگر حکومت نے ایسا نہیں کیا تو میں دھرنے میں جاکر بیٹھ جاؤں گا۔"