افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں اساتذہ کی عدم دستیابی اور امن و امان کی صورتِ حال پر طالبات اور مقامی افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
منگل کو ہونے والے اس احتجاجی مظاہرے میں گورنمنٹ ڈگری کالج کی طالبات جب کہ مقامی افراد نے علاقے میں امن و امان کی خراب صورتِ حال کے خلاف احتجاج کیا۔
خواتین نے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جن پر حکومت کے خلاف نعرے درج تھے۔
طالبات کا مؤقف تھا کہ گورنمنٹ ڈگری کالج وانا گزشتہ دو برس سے بند ہونے اور لیڈی ٹیچرز کی عدم موجودگی کے باعث اُن کی پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے۔ طالبات نے ٹرانسپورٹ اور ٹیچرز کی دستیابی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ کالج دو برس سے بند ہے اور کالج انتظامیہ اور ٹیچرز ہر ماہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں جس کی وجہ سے طالبات کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) اور سیاسی اور سماجی تنظیموں پر مشتمل تنظیم 'اولسی پاثون' کے زیرِ اہتمام منگل کو ایک مقامی کانٹریکٹر کے اغوا کے خلاف وانا میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرے میں سماجی شخصیات کے علاوہ وکلا اور مقامی افراد نے بھی شرکت کی۔
مظاہروں میں شریک سینکڑوں افراد نے علاقے میں بڑھتے ہوئے جرائم اور اغوا کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عسکریت پسندوں اور دہشت گردی کے خلاف نعرے بازی کی۔
اس موقع پر تقاریر کرتے ہوئے مختلف رہنماؤں نے مغوی کانٹریکٹر کی بازیابی کے لیے حکام کو پانچ دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے غیر ریاستی مسلح افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ کیا۔
قبائلی عمائدین نے ماضی کی طرح حکومت کو کسی بھی مسلح گروپ کے ساتھ معاہدہ نہ کرنے کی تنبیہ کی۔
جنوبی وزیرستان کے سینئر صحافی دلاور وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وانا اور گردونواح میں امن و امان کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔
اُن کے بقول کالعدم شدت پسند تنظیم (ٹی ٹی پی) سے منسلک جنگجو سوات کے علاوہ اب وانا میں بھی نظر آ رہے ہیں۔
مقامی افراد کا الزام ہے کہ یہ شدت پسند بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں اور مقامی کانٹریکٹر طارق کا اغوا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
منگل کو ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے جنوبی وزیرستان کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی، لیکن اُن سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
خیال رہے کہ خیبزپختونخوا کی حکومت اور سیکیورٹی فورسز کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد ان علاقوں سے دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا گیا ہے۔
وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف بھی بارہا یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ اگست کے اوائل میں سرحد پار افغانستان سے آنے والے طالبان جنگجو اب واپس جا چکے ہیں۔ تاہم مقامی سیاسی جماعتوں کے رہنما بیرسڑ سیف کے ان دعووں کو مسترد کرتے ہیں۔