پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑنے کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہو گا یا حکومتی اتحاد کو؟

فائل فوٹو

پاکستان میں قبل از وقت انتخابات کو لے کر سیاسی مباحثے جاری ہیں، جہاں حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) فوری انتخابات کرانے کا مسلسل مطالبہ کر رہی ہے تو دوسری طرف حکمران اتحاد چاہتا ہے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں۔

پی ٹی آئی اپنا مطالبہ نہ ماننے کی صورت اکثریت رکھنے والی دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا بھی اعلان کر چکی ہے۔ اتوار کو پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ اگر حکومت 20 دسمبر تک عام انتخابات کا فارمولا نہیں لاتی تو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی۔

ایسے میں اتوار کو پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بھی ایک بار پھر کہا کہ رواں ماہ اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ ہو جائے گا۔

اس سیاسی صورتِ حال میں تبصرے کیے جارہے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی اکثریت رکھنے والے دو صوبوں میں اسمبلیاں تحلیل کردے گی؟ اور کیا حکمران اتحاد صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے باوجود قبل از وقت عام انتخابات کے بجائے صرف صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے گا؟

پی ٹی آئی کو فائدے سے زیادہ نقصان کا امکان

پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل پر سینئر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے کہا کہ اس اقدام سے پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان پہنچنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے تحلیل کے بعد انتخابات کرائے جاتے ہیں تو وفاق میں تو مسلم لیگ (ن) کی اتحادی حکومت ہوگی جس کا فائدہ وہ اٹھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی چاہے گی کہ وفاق اور صوبوں میں ایک ساتھ عام انتخابات ہوں۔ پنجاب و خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ کن وار اسی وقت کیا جائے، جب انہیں لگے گا کہ اس کے نتیجے میں پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات ہو جائیں گے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا عمران خان اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے 'لاڈلے' ہیں؟

تجزیہ نگار افتخار احمد نے کہا کہ کہ اصولی طور پر حکمران اتحاد کا مؤقف ہے کہ انتخابات دباؤ کے تحت نہیں ہونے چاہیئں کیوں کہ اس طرح تو نظامِ حکومت چل ہی نہیں سکے گا اور آئے روز کوئی نہ کوئی گروہ انتخابات کا مطالبہ کرتا رہے گا۔

مسلم لیگ (ن) انتخابات سے بچنے کے لیے کوشاں

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں افتخار احمد نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات سے بچنا چاہتی تھی لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب و خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کرنے کے بیانات پر اب حکمران جماعت بھی ان صوبوں میں انتخابات میں جانے کی بات کر رہی ہے۔

انتخابات اور انتخابی سیاسی کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھنے والے افتخار احمد کہتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابی سیاست اور جلسہ جلوس میں بہت فرق پایا جاتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جو جماعت سڑکوں پر طاقت رکھتی ہے وہ کامیابی کے لیے درکار ووٹ بھی حاصل کرسکے۔

ان کے بقول انتخابی سیاست، حلقوں، برادریوں، امیدواروں کے انتخاب سمیت کئی عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔

کیا حکمران اتحاد صوبائی انتخابات میں جائے گا؟

پی ٹی آئی کی جانب سے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر حکمران اتحاد بھی اب واضح مؤقف کے ساتھ سامنے آرہا ہے۔

وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی اور حکمران اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان صوبائی اسمبلیاں تحلیل کریں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی اسمبلیاں توڑتی ہے تو حکومت الیکشن کمیشن سے کہے گی کہ دونوں صوبوں میں انتخابات کرائے جائیں۔

SEE ALSO: سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے ڈبل گیم کھیلی، ایکسٹینشن دینا سب سے بڑی غلطی تھی: عمران خان

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن پارلیمان کو اپنی مدت مکمل کرنی چاہیے۔

وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی کہتے ہیں کہ موجودہ اتحادی حکومت نے عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب بنا کر تاریخ رقم کی ہے اور اب اگر پی ٹی آئی اسمبلیاں تحلیل کرتی ہے تو دو صوبوں میں انتخابات کرا کر نئی روایت قائم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں عام انتخابات وقت پر ہی ہوں گے۔

دوسری جانب وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ عمران خان اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کریں تو 90 روز کے اندر ان اسمبلیوں میں دوبارہ انتخابات کرائیں گے۔

اس سے قبل حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنما عمران خان کو صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ حکمران اتحاد فوری انتخابات نہیں چاہتا لیکن انتخابات سے گریز کے بیانات ان کی کمزوری کو ظاہر کریں گے لہٰذا اب حکومتی رہنما صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر مقابلے کی باتیں کر رہے ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ آئندہ سال چوں کہ انتخابات کا سال ہے تو مسلم لیگ (ن) بہر صورت اس سے بچ نہیں سکتی ہے لیکن اس کی حکمتِ عملی یہ ہوگی گی کہ عام انتخابات میں جس قدر تاخیر ہوسکے اس کے امکانات بنائے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت کی لہر ہے تو مسلم لیگ (ن) انتخابات کے فوری انعقاد کو سیاسی طور پر موافق نہیں سمجھتی ہے۔

SEE ALSO: پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر 7 ارب ڈالر سے بھی کم؛ معاشی ماہرین کو تشویش

افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ حکمران اتحاد نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر پی ٹی آئی پنجاب و خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرتی ہے تو عام انتخابات کی بجائے ان دو صوبوں میں انتخابات میں جائیں گے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں اسمبلیاں تحلیل ہونے نہیں جارہی اور نہ ہی نواز شریف کی فوری وطن واپسی کے امکانات ہیں۔

سہیل وڑائچ بھی سمجھتے ہیں کہ نئی سیاسی صورتِ حال میں مسلم لیگ (ن) اب انتخابات کی تیاری کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور انہیں لگتا ہے کہ نواز شریف واپس آکر ایسا بیانیہ بنائیں گے کہ انتخابات میں انہیں کامیابی ہوگی۔

نواز شریف کی واپسی ن لیگ کو کیا فائدہ دے گی؟

ملکی سیاسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف کی وطن واپسی کے بیانات دے رہے ہیں۔

وفاقی وزیر ایاز صادق نے ایک ٹی وی مذاکرے میں کہا کہ نواز شریف جنوری میں پاکستان آ رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے لندن میں نواز شریف سے ملاقات کرنے والے حکومتی رہنما فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ نواز شریف وطن واپسی کی تیاری کیے ہوئے ہیں اور اس حوالے سے حتمی فیصلہ آئندہ چند روز میں سامنے آجائے گا۔

مبصرین نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ملک کی مستقبل کی سیاست پر بھی تبصرے کر رہے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

عمران خان کے کہنے پر اسمبلی توڑنے میں آدھا منٹ بھی نہیں لگاؤں گا: وزیرِ اعلیٰ پنجاب

نواز شریف کی واپسی پر بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی کا وقت آگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتوں کی جانب سے مقدمات کے فیصلے سامنے آنے پر نواز شریف رخت سفر باندھ لیں گے۔

سہیل وڑائچ نے کہا کہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی کا تمام تر انحصار نواز شریف کی وطن واپسی اور عوامی رابطے پر ہے کیوں کہ سابق وزیرِ اعظم نے پنجاب میں ہمیشہ اپنے بیانیے کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی ہے۔

افتخار احمد کہتے ہیں کہ وہ نہیں سمجھتے کہ نواز شریف کے فوری وطن واپسی کے امکانات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف عام انتخابات سے قبل ہر صورت پاکستان آئیں گے کیوں کہ اس پر ان کی جماعت کی انتخابی حکمتِ عملی کا انحصار ہے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ابھی یہ کہا نہیں جا سکتا کہ پنجاب و خیبر پختونخوا اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد نواز شریف انتخابی مہم چلائیں گے یا نہیں۔