اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر مزید کم ہو کر سات ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں جس کے بعد معاشی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کے لیے بیرونی ادائیگیاں کرنا ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
جمعرات کو جب پاکستان کے مرکزی بینک نے ہفتہ وار رپورٹ جاری کی تو اس میں بتایا گیا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ایک ہفتے میں 784ملین ڈالر کم ہوئے ہیں۔ اس کمی کی وجہ پاکستان انٹرنیشنل اسکوک اور کچھ دیگر بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں بتائی جا رہی ہے۔
اس دوران کچھ رقم کی ادائیگی ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی جانب سے ملنے والے 500 ملین امریکی ڈالر کے نئے قرض سے بھی ممکن ہوسکی اور اب بینک کے پاس صرف 6.714 ارب امریکی ڈالر کے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر رہ گئے ہیں جو چار سال میں مرکزی بینک کے کم ترین ذخائر بتائے جاتے ہیں۔
یوں ایک ہفتے میں ان ذخائر میں کوئی ساڑھے دس فی صد کی کمی واقع ہوئی اور رواں سال کے 11 ماہ میں اس میں 10 ارب ڈالرز سے زائد کی کمی واقع ہوچکی ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں یہ ذخائر 17 ارب ڈالرز سے بھی زائد کے بتائے جاتے تھے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے عمران خان کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد وجود میں آںے والی حکومت میں اب تک غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 4 ارب ڈالر سے زائد کی کمی آچکی ہے۔
'غیر ملکی زرِمبادلہ کی آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے صورتَ حال تشویشناک ہے"
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی یہ ذخائر ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر نہیں لیکن ان میں مسلسل کمی اس لیے خطرناک ہے کیوں کہ پاکستان کی رواں سال اور پھر آنے والے سالوں میں قرض، سود کی رقم اور دیگر بین الاقوامی ادائیگیاں اس سے کہیں زیادہ ہیں اور ملکی خزانے میں فی الحال ڈالرز کی آمد انتہائی کم اور اخراج کافی زیادہ نظر آ رہا ہے۔
کراچی میں مقیم ماہر اقتصادیات عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ کم ہوتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائراس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ قومی معیشت تیزی سے اس جانب بڑھ رہی ہے جہاں خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کا شکار نہ ہوجائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری معیشت کا ڈھانچہ ہی کچھ یوں ہے کہ اس کا زیادہ تر یعنی 80 فی صد انحصار درآمدشدہ تیار مصنوعات یا خام مال پر ہے اور درآمدات کے لیے ہمیں غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر درکار ہوتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں ہماری آمدنی کے ذرائع محدود اور قرضوں کا بوجھ بے تحاشا ہے۔ کُل ملا کر بھی اس سال ہمارے غیر ملکی زرِمبادلہ کا تخمینہ 60 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جس میں برآمدات 30 ارب ڈالر اور 30 ارب ڈالر ہی کے لگ بھگ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے آنے والی رقوم شامل ہیں۔
لیکن دوسری جانب اخراجات میں دیکھا جائے تو گزشتہ سال ہم نے 80 ارب ڈالر کے لگ بھگ کی درآمدات کی تھیں اور قرضوں کی ادائیگی اس کے علاوہ تھی۔
یوں پاکستان کے جاری کھاتوں کا خسارہ گزشتہ مالی سال میں 17.4 ارب ڈالر کا رہا تھا۔ اگرچہ اس بار حکومت نے اسے کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر حکمتِ عملی تو اپنا رکھی ہے لیکن اس کی وجہ سے پیداوار رُک رہی ہے اور معیشت سست روی کا شکار ہے۔
اس طرح ہماری قومی معاشی ترقی (جی ڈی پی ) کی شرح 2 فی صد یا اس سے بھی کم رہنے کا امکان ہے۔ جب معاشی ترقی کی رفتار دھیمی ہو گی تو اس کا مطلب ہے کہ روزگار کے مواقع کم پیدا ہورہے ہیں اور ملک کی فی کس آمدنی منجمد رہے گی۔
دوسری جانب قرضوں، سُود اور دیگر ادائیگیوں کے باعث ہمارے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پر ہیں جس سے یہ خدشات تقویت پارہے ہیں کہ کیا پاکستان اپنے ذمے واجب الادا قرضے بروقت ادا کرپائے گا یا نہیں؟
پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے
ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ تین سال میں پاکستان کو 73 ارب امریکی ڈالرز کے غیر ملکی قرضے واپس کرنا ہیں۔اس وقت ملک کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر صرف چھ ارب 71 کروڑ ڈالر کے ہیں اور آئی ایم ایف سمیت سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سمیت کسی ملک سے حکومتی دعووں کے برعکس اب تک کوئی رقم نہیں مل پائی ہے۔
ادھر روزنامہ ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق پاکستان نے زرِمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح پرآجانے کے بعد سعودی عرب سے درخواست کی ہے کہ اسے فوری طور پر مزید تین ارب ڈالر نقد فراہم کیے جائیں۔
پاکستان کے قومی خزانے میں سعودی عرب کےسعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کی جانب سے تین ارب ڈالر کے ڈپازٹس پہلے سے موجود ہیں اور مزید تین ارب ڈالر کی درخواست وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بدھ کو پاکستان میں سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی سے ملاقات کے دوران کی ہے۔
خبر کے مطابق وزیر خزانہ نے دیگر کئی غیرملکی سفارت کاروں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں تاکہ ان ممالک کو آئی ایم ایف کی جانب سے شرائط میں نرمی کے لیے راضی کیا جاسکے اور پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض ملنے کی راہ ہموار ہو۔
"کم ہوتے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کی ایک وجہ سیاسی عدم استحکام بھی ہے"
معاشی امور کے ایک اور ماہر اور کالم نگار پروفیسر ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں کہ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ قومی خزانے میں موجود 6 ارب 71 کروڑ ڈالرز میں سے 3 ارب سعودی عرب اور 2 ارب ڈالر چین کی حکومت کے ہیں جنہیں کمرشل مقاصد یعنی قرض ادا کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
اُن کے بقول ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے باعث نوبت یہ آچکی ہے کہ دوست ممالک سے پاکستان قرضے بھی ری شیڈول کرانے میں کامیاب نہیں ہو پارہا ہے کیوں کہ یہ ممالک فی الحال یہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں آخر سیاسی عدم استحکام کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
اُن کے بقول ہمیں آئی ایم ایف کی جانب سے ماضی میں بھی رعایتیں ملتی رہی ہیں جب بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے مفادات پاکستان کے مفادات سےوابستہ تھے، لیکن اب ویسی صورتِ حال نہیں ہے۔
انہوں نے مزید نشاندہی کی کہ پاکستان کی اس کے پڑوسی ممالک سے تجارت انتہائی کم ہے۔ دوسری جانب چین اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت 100 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کی چین سے دوطرفہ تجارت سال 2021 میں 27.82 ارب ڈالر تھی۔
ایک جانب پاکستان پڑوسی ممالک سے تجارت انتہائی کم کررہا ہے کیوں کہ ملک کے اندر تیار ہونے والی بیشترمصنوعات کی دنیا بھر بلکہ علاقائی سطح پر بھی کوئی مانگ نہیں۔
ڈاکٹر اکرام الحق کہتے ہیں کہ ظاہر ہے ایسے میں قومی خزانے میں رقم کہاں سے آسکتی ہے اور اس صورتِ حال کو قرض لے لے کر ہی پورا کیا جاتا رہا۔ لیکن اب ان تباہ کُن معاشی پالیسیوں کے نتائج سامنے آرہے ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام نے رہے سہے کاروبار کو بھی تباہ کررکھا ہے۔
صورتحال چیلنجنگ ضرور ہے لیکن بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں؛ گورنر اسٹیٹ بینک
لیکن دوسری جانب گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ تمام بین الاقوامی ادائیگیاں معمول کے مطابق ہوں گی اور توقع ہے کہ رواں مالی سال کی دوسری ششماہی میں زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر بعض اہم چیلنجز ہیں جن میں یوکرین جنگ، اجناس کی بین الاقوامی قیمتوں میں تاریخی اضافہ اور مرکزی بینکوں کی جانب سے سخت پالیسی کے نتیجے میں پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی مالی منڈیوں سے فنڈز جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اُن کے بقول ملکی محاذ پر معیشت سیلاب سے متاثر ہوئی ہے جس نے پاکستان کے لیے خاصے چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسٹیٹ بینک اور حکومتِ پاکستان صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال میں بیرونی اسٹیک ہولڈرز کو تقریباً 33 ارب ڈالر ادا کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جن میں جاری کھاتوں (کے خساروں ) کی مد میں 10 ارب ڈالر اور قرضوں کی واپسی کی مد میں 23 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں مالی برس میں بیرونی قرضوں میں قابل ادائیگی 23 ارب ڈالر میں سے پاکستان پہلے ہی 6 ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے واپس کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ متعلقہ ممالک کے تعاون سے 4 ارب ڈالر کے دو طرفہ قرضے کو رول اوور کر دیا گیا ہے۔ مزید 8.3 ارب ڈالر کے قرضے روول اور ہونے کی توقع ہے جس کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔