لاہور: ’پی ایس ایل فائنل‘ کے ٹکٹ کا حصول مشکل ترین مرحلہ

ایک مقامی بینک کی درجن بھر شاخوں پر ٹکٹ فروخت ہونا تھے۔ ان بینک برانچوں پر وقت سے پہلے ہی بھاری تعداد میں شائقین جمع ہوگئے تھے۔ زیادہ مانگ 500 روپے والے ٹکٹ کی تھی جو بہت کم خوش نصیبوں کو حاصل ہوسکے

پاکستان سپر لیگ کرکٹ کے فائنل میچ کی ٹکٹوں کی فروخت کا آغاز ایک روز قبل ہوا تھا اور پہلے ہی روز آن لائن فروخت سلسلہ فوری طور پر روک دیا گیا کیوں کہ آن لائن جتنی ٹکٹیں فروخت ہونا تھیں وہ فوری طور پر بک ہوگئیں۔

ایک مقامی بینک کی درجن بھر شاخوں پر ٹکٹ فروخت ہونا تھے۔ ان بینک برانچوں پر وقت سے پہلے ہی بھاری تعداد میں شائقین جمع ہوگئے تھے۔ زیادہ مانگ 500 روپے والے ٹکٹ کی تھی جو بہت کم خوش نصیبوں کو حاصل ہوسکے۔

شکایت عام تھی کہ 500 روپے والے ٹکٹ مل ہی نہیں رہے ہیں۔ دوسرے ٹکٹ چار ہزار آٹھ ہزار اور بارہ ہزار روپے والے تھے، جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر معلوم ہوتے تھے۔ مگر، لوگ مہنگے ٹکٹ بھی خریدتے رہے۔

لاہور سے باہر کے شہروں میں سے جو ٹکٹ لینے آئے تھے ان میں سے اکثر مایوس ہوئے، کیوں کہ ان میں زیادہ تر 500 روپے ٹکٹ کے ہی طلب گار تھے۔

جمعرات کو یعنی دوسرے روز بھی یہی حالت دیکھنے میں آئی۔ بینکوں کے باہر ہجوم، لوگ ناراض، بلیک میں ٹکٹ فروخت کرنے کے الزامات۔


پنجاب اسمبلی میں ایک رکن نے شکایت جمع کروائی کہ 500 روپے والا ٹکٹ 4000 روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے۔

دونوں دن پورے لاہور میں بینک برانچوں کے لوگوں کی حالت قابل دید تھی۔ بعض افراد اس قدر صبح پہنچے تھے کہ وہ ناشتہ بھی بینک کے باہر قطار میں بیٹھ کررہے تھے مگر کٹک ان کو بھی نہ مل پائے۔ جمعرات کو تو چار ہزار اور آٹھ ہزار والے ٹکٹ بھی دستیاب نہ تھے بلکہ صرف بارہ ہزار روپے والے ٹکٹ فروخٹ ہونی اطلاعات مل رہی تھیں۔

راجہ اسد علی خاں کرکٹ کمنٹیٹر ہیں اور 30 برسوں سے اس کھیل پر رواں تبصرہ بھی کر رہے ہیں اور لاہور میں مقامی کرکٹ ایسوسی ایشنوں کے عہدیدار بھی رہے ہیں۔ انہوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ جس قدر جوش و خروش میچ کے ٹکٹ لینے کے ضمن میں پہلے روز انہوں نے دیکھا ایسا ماضی میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ امیر آدمیوں سے لے کر خواچہ فروش تک سب میچ کے ٹکٹ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ راجہ اسد کا کہنا تھا کہ اس قدر جوش و خروش کے بعد اب دیھنا ہگا کہ منتظمین کس طرح اس میچ کا انعقاد کامیاب بناتے ہیں۔

دریں اثنا، لاہور میں پانچ مارچ سے ہونے والے اس میچ کے لئے سیکورٹی انتظامات کی ریہرسل شروع ہوچکی ہے۔ دوسرے شہروں سے پولیس افسروں اور سپاہیوں کو لاہور بلایا گیا ہے۔ فوج اور رینجرز کی مکمل مدد حاصل ہے۔

اس صورتحال میں اپوزیشن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ لاہور میں کرفیو لگا کر میچ کرانے کی تیاری پوری ہو رہی ہے جس کے جواب میں پنجاب کے وزیر قانون نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ صرف وہ ہوٹل جہاں کھلاڑی ٹھہریں گے اور قذافی اسٹیڈیم کے اردگرد کا علاقہ میچ والے دن بند رکھا جائے گا، جبکہ باقی شہر میں محض سیکورٹی ہائی الرٹ ہوگی اور شہر کو بند ہرگز نہیں کیا جائے گا۔