پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ تحریکِ انصاف کی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ جلد سنایا جائے جب کہ پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد پاکستان کی سیاسی صورتِ حال یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔
حکومتی اتحادی جماعتیں منگل کو لاہور میں بیٹھک لگا رہی ہیں وہیں تحریکِ انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن پر دباؤ اور نئے انتخابات کے اعلانات کے مطالبات میں بھی شدت آگئی ہے۔
تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خبردار کیا ہے کہ ان کے پاس چند روز ہیں وہ اپنے عہدے سے متعلق جلد فیصلہ کر لیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ 22 جولائی کے بعد پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اعتماد کھو چکے ہیں، ملک کی سب سے بڑی جماعت کہہ رہی ہے کہ اسے سکندر سلطان راجہ پر اعتماد نہیں، اس لیے وہ خود فیصلہ کر لیں کہ انہیں گھر جانا ہے یا ہم انہیں نکالیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پی ٹی آئی سے متعلق سات فیصلوں کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا جہاں وہ تمام فیصلے پی ٹِی آئی کے حق میں آئے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر غیر جانبدار ہیں اور وہ حکمراں جماعت کے لیے کام کر رہے ہیں جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بھی اپنے کئی بیانات میں سکندر سلطان راجہ پر غیر جانبداری کا الزام عائد کر چکے ہیں۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے الیکشن کمیشن پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ طویل عرصے سے شکار پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنایا جائے۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ریاستی اداروں پر باربار کے حملوں کے باوجود عمران خان کو کھلی چھوٹ مل رہی ہے جس کا نقصان ملک کو ہوا ہے۔
پنجاب میں حکومت سازی کا دعویٰ
فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت وینٹی لیٹر پر ہے جس کا جب چاہیں سوئچ آف کر دیں۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پنجاب اسمبلی میں پانچ حکومتی ارکان رابطے میں ہیں اور 22 جولائی کے بعد صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت کو ہوگی۔
واضح رہے کہ 22 جولائی کو پنجاب کے نئے وزیرِ اعلیٰ کا انتخاب ہونا ہے۔ اسپیکر چوہدری پرویز الہیٰ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں جب کہ حمزہ شہباز مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔
پنجاب میں حکومت سازی کے لیے کسی بھی جماعت کو ایوان میں 187 نشستیں درکار ہیں۔ تحریکِ انصاف کے اتحاد نے 188 نشستیں حاصل کر کے حکومت سازی کے لیے درکار مطلوبہ ہدف حاصل کر لیا ہے۔
پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کے بعد اب پنجاب میں تحریکِ انصاف کی نشستوں کی تعداد 178 ہو گئی ہے جب کہ مسلم لیگ (ق) کی 10 نشستیں ملا لی جائیں تو 371 کے ایوان میں اس اتحاد کے پاس 188 نشستیں بنتی ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کے پاس پنجاب اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 175 ہے۔ جس میں مسلم لیگ (ن) کی 167، پیپلز پارٹی کی سات اور راہِ حق پارٹی کی ایک نشست ہے جب کہ چھ آزاد امیدوار ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف کے اتحاد سمیت آزاد امیدواروں کو ملا کر پنجاب اسمبلی میں ارکان کی کل تعداد 369 بنتی ہے جب کہ دو نشستیں مسلم لیگ (ن) کے منحرف ارکان کے استعفوں کے بعد خالی ہوئی ہیں۔