نو مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کی جانب سے پارٹی چھوڑنے یا سیاست سے الگ ہونے سے متعلق پریس کانفرنسز کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے میں خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے اہم رہنما اور عمران خان کے قریبی ساتھی پرویز خٹک نے بھی پارٹی عہدہ چھوڑ دیا ہے۔
جمعرات کی شب ایک مختصر پریس کانفرنس میں پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ وہ کئی روز سے ملکی حالات دیکھ رہے ہیں اور نو مئی کے واقعات کی مذمت کر چکے ہیں۔
نو مئی کے واقعات کے بعد پنجاب اور سندھ سے پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی تعداد زیادہ تھی اور یہ کہا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے رہنما فی الحال خاموش ہیں۔ لیکن پرویز خٹک کی پریس کانفرنس کے بعد اب یہاں بھی صورتِ حال بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔
اگرچہ جماعت سے الگ ہونے والے متعدد رہنماؤں نے بتایا ہے کہ ان کا پی 'ٹی آئی سے الگ ہونے کا فیصلہ رضاکارانہ ہے لیکن بعض تجزیہ کاروں کی رائے اس سے مختلف ہے ۔
پرویز خٹک کی جانب سے پارٹی عہدے چھوڑنے کے بعد یہ سوال جنم لے رہا ہے کیا پی ٹی آئی اپنا گڑھ سمجھے جانے والے خیبرپختونخوا میں اپنی سیاسی قوت برقرار رکھ سکے گی یا نہیں؟
'خیبرپختونخوا کے رہنماؤں کا بھی عمران خان کے ساتھ چلنا اب مشکل ہے'
پرویز خٹک کی پریس کانفرنس کے دوران سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بھی قریب بیٹھے دکھائی دیے، تاہم اُنہوں نے اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی کہتے ہیں کہ اسد قیصر کی بھی پریس کانفرنس کے دوران موجودگی سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ بھی مستقبل قریب میں کوئی بڑا فیصلہ لے سکتے ہیں۔
سلیم صافی کے بقول مقتدر حلقے سمجھتے ہیں کہ عمران خان ریاست کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ لہذٰا پرویز خٹک، اسد قیصر اور محمود خان جیسے لوگوں کے لیے اس لڑائی میں عمران خان کا ساتھ دینا ممکن نظر نہیں آتا۔
سلیم صافی نے یاد دلایا کہ زیر عتاب رہنے کے باوجود پرویز خٹک آخری وقت تک عمران خان کے ساتھ وفادار رہے ہیں۔ ان کے بقول عمران خان کی مقتدر ادارے کے ساتھ محاذ آرائی کے باعث انہوں نے پارٹی کی صوبائی صدارت سے علیحدگی اختیار کی۔
وائس آف امریکہ کو ایک معتبر ذریعے نے بتایا ہے کہ پرویز خٹک اور اسد قیصر مستقبل کا سیاسی لائحہ عمل طے کرنے کے لیے آپس میں صلاح مشوروں کا سلسلہ جاری رکھےہوئے ہیں ۔
SEE ALSO: پاکستان میں بننے والی کنگز پارٹی؛ 'حکومت کسی کی ہو اقتدار میں الیکٹیبلز ہی ہوتے ہیں'پارٹی چھوڑنے والوں کے پاس کیا آپشنز ہیں؟
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم صافی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں پر کسی ایک سیاسی جماعت میں شامل ہونے کی پابندی نہیں ہے۔
اُن کے بقول پی ٹی آئی چھوڑنے والے جہانگیر ترین گروپ کی نئی مجوزہ پارٹی کے علاوہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
اُن کے بقول بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایک دھڑا اب بھی عمران خان کے ساتھ وفادار ہے، لیکن آنے والے دنوں میں ہی پتا چلے گا کہ اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
سلیم صافی کے بقول چوہدری شجاعت حسین کی پاکستان مسلم لیگ (ق) بھی اب منظم ہو رہی ہے تاہم جہانگیر ترین گروپ اور مسلم لیگ (ق) کے مستقبل کا دارومدار اسٹیبلشمنٹ کی منشا پر ہی ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف
خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان اور سابق صوبائی وزیر شوکت علی یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے، لہذٰا اسے ایسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اس سیاسی بحران کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
اُن کے بقول عمران خان سمیت تمام قیادت مذاکرات کے لیے تیار ہے مگر حکومت تیار دکھائی نہیں دیتی۔
شوکت یوسف زئی کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک نے پارٹی عہدہ چھوڑا ہے، لیکن وہ اب بھی پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔
خیال رہے کہ پرویز خٹک اور اسد قیصر کے علاوہ سابق گورنر شاہ فرمان، سابق وزیرِ اعلٰی محمود خان، سابق وزرا عاطف خان، مراد سعید، سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی جیسے اہم رہنما نو مئی کے واقعات کے بعد سے روپوش ہیں۔
پشاور کے سینئر صحافی عرفان خان کہتے ہیں کہ پرویز خٹک کی جانب سے پارٹی عہدہ چھوڑنے کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ بڑی تعداد میں خیبرپختونخوا سے پارٹی رہنما اور کارکن بھی کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو خیبرپختونخوا میں اپنی پارٹی مقبولیت پر بڑا مان ہے، لیکن اب بظاہر یہاں بھی ہواؤں کا رُخ بدل رہا ہے۔
اُن کے بقول اسد قیصر، سابق گورنر شاہ فرمان، سابق صوبائی وزرا عاطف خان ،شوکت یوسف زئی اور کامران بنگش جیسے نظرہاتی کارکن اب بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف 2013 کے انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ 2018 کے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت سے اقتدار میں آئی تھی۔