|
پاکستان کے وزیرِ برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اگر اپنا طرزِ عمل بدلتے ہوئے قوم اور اداروں سے معافی مانگ لے تو وہ قومی دھارے میں شامل ہوسکتی ہے۔
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے علی فرقان کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں احسن اقبال نے کہا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ سیاست پاکستانی ریاست کے مفادات پر براہِ راست حملہ ہے اور ایسا طرزِ سیاست رکھنے والی جماعت کو کسی جمہوریت میں سیاسی کردار کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
ان کے بقول جس طرزِ سیاست پر پی ٹی آئی کھڑی ہے وہ نہیں سمجھتے کہ اس طرز سیاست کے ساتھ امریکہ و برطانیہ جیسی جمہوریت میں بھی کسی ایسی جماعت کو سیاسی کردار کی اجازت دی جائے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے 15 جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں تحریکِ انصاف پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ پی ٹی آئی کے خلاف ایسے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں جس کی بنا پر اس پر پابندی لگائی جائے گی۔
احسن اقبال نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگے یا نہ لگے۔ ایک بات طے ہے کہ وہ اس وقت ریاست کے مفادات پر براہِ راست حملہ آور ہے۔ پی ٹی آئی نے نو مئی کو جو کچھ کیا اگر امریکہ و برطانیہ میں بھی جتھے ایسی کارروائی کریں تو انہیں کوئی رعایت نہیں دی جاتی، جیسے امریکی کانگریس پر حملے میں ملوث افراد کو 14، 14 سال سزا سنائی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت ملک کے مفادات کے خلاف کام کرتی پائی جائے اور غیر ملکی امداد لے رہی ہو تو پاکستان کے آئین و قانون میں اس کا ایک واضع طریقۂ کار وضع ہے۔
حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب پی ٹی آئی کے بانی عمران خان سمیت پارٹی کے کئی رہنما و کارکن یا تو جیلوں میں ہیں یا انہیں مقدمات کا سامنا ہے۔
احسن اقبال کے مطابق کسی سیاسی جماعت پر پابندی صرف حکومت کی خواہش پر نہیں ہوسکتی بلکہ حکومت کو اپنے اس عمل کی اعلیٰ عدالت سے توثیق بھی لینا ہوتی ہے۔
'بیرونی پروپیگنڈے کی وجہ سے پابندی کا اعلان کیا'
وزیرِ منصوبہ بندی کے مطابق حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا اعلان اس لیے کیا کیوں کہ حالیہ عرصے میں بیرونِ ممالک پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف ایک مذموم مہم چلائی گئی۔ ان ساری چیزوں کی روشنی میں حکومتی ادارے جائزہ لے رہے ہیں اور جو بھی کارروائی کی جائے گی وہ آئین و قانون کے مطابق ہوگی۔
پی ٹی آئی پر پابندی کے اعلان کے باوجود حکومت تاحال وفاقی کابینہ سے اس کی منظوری نہیں لے سکی ہے اور نہ ہی اتحادی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے ہوسکا ہے۔
پابندی کے اعلان کے باوجود فیصلے میں تعطل کے سوال احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ریاستی ادارے جب بھی سمجھیں گے کہ پابندی کا مقدمہ آئین و قانون کے تحت اس قدر مضبوط ہے کہ اس کا دفاع اعلیٰ عدلیہ میں کیا جاسکتا ہے تو فیصلہ کرلیا جائے گا۔
'عمران خان بتائیں فوج سے کیا بات کرنی ہے؟'
پی ٹی آئی کو فوج سے لڑانے کے عمران خان کے دعوے پر احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان یہ بتائیں کہ کس حکومت کے نمائندے نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ فوجی تنصیبات پر حملہ کریں اور سوشل میڈیا پر فوج اور آرمی چیف کے خلاف بے ہودہ پروپیگنڈا کریں۔
انہوں نے کہا کہ اب تو عمران خان خود تسلیم کرتے ہیں کہ فوجی ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنا ان کا اپنا منصوبہ تھا۔
احسن اقبال کہتے ہیں کہ عمران خان بتائیں کہ انہوں نے فوج سے کس بات پر مذاکرات کرنے ہیں جو وہ کہ رہے ہیں کہ آرمی چیف اپنا نمائندہ مقرر کریں۔
عمران خان نے حال ہی میں اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران فوج سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے۔
SEE ALSO: تحریکِ انصاف پر پابندی کا اعلان؛ عمل درآمد میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟احسن اقبال نے فوج سے مذاکرات کی خواہش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت ہوتی ہے تو اس سے حکومت کو کوئی پریشانی لاحق نہیں لیکن فوج کو سیاست میں ملوث نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کا طرزِ سیاست تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ وہ سول بالادستی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ساتھ ہی فوج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت بھی دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان چاہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ انہیں 2018 کی طرح گھوڑے پر سوار کر کے وزیرِ اعظم ہاؤس پہنچائے۔
'عدلیہ اگر عدم استحکام لاتی ہے تو یہ پاکستان کی خدمت نہیں'
عدلیہ اور فوج کے درمیان تناؤ کے سوال پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت تناؤ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ملک کو اگر آگے بڑھنا ہے تو عدلیہ، پارلیمنٹ، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا سب کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت اعتماد کی ضرورت ہے، ایک دوسرے سے قدم ملا کہ آئین کے مطابق چلیں۔ ہر قیمت پر پاکستان میں استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنا ہے۔
ان کے بقول، اگر عدلیہ عدم استحکام پیدا کرتی ہے تو وہ پاکستان کی خدمت نہیں ہوگی۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت استحکام اور اصلاحات پر عمل کرنے کی ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق 12 جولائی کے اپنے فیصلے میں کثرتِ رائے سے تحریکِ انصاف کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرتے ہوئے اسے مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا تھا۔
SEE ALSO: عدالتی فیصلے کے باوجود تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستیں کیوں نہیں مل رہیں؟مسلم لیگ (ن) نے اعلیٰ عدالت کے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کر رکھی ہے جب کہ اس ضمن میں اسمبلی میں ایک بل بھی پیش کیا جا چکا ہے جس کی حکومت نے حمایت کی ہے۔
وزیرِ منصوبہ بندی کے مطابق اگر کامیابی سے آئی ایم ایف پروگرام کے دو سال نکال لیے تو اگلے سالوں میں مہنگائی، بجلی کے بلوں اور بے روزگاری جیسے مسائل سے قوم کو نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
احسن اقبال کہتے ہیں حکومت نے مشکل سے دوست ممالک کو دوبارہ پاکستان کی جانب راغب کیا ہے او سعودی عرب نے پانچ عرب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے، متحدہ عرب امارات نے 10 ارب، آذربائیجان نے دو ارب اور چین نے سی پیک فیز ٹو میں پانچ نئے کاریڈورز شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
'چین کے سیکیورٹی تحفظات دور کرنے میں کامیاب رہے'
احسن اقبال نے کہا کہ چین کے سیکیورٹی تحفظات کو کافی حد تک دور کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور وزیرِ اعظم کے حالیہ دورۂ بیجنگ کے دوران اضافی اقدامات سے دوست ملک کی قیادت کو آگاہ کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین کو ادراک ہے کہ پاکستان میں ان کے ورکرز پر حملے وہ عناصر کر رہے ہیں جو پاک چین اشتراک کے دشمن ہیں۔ اسی لیے بیجنگ نے اعلان کر رکھا ہے کہ حملوں کے نتیجے میں پاک چین تعاون نہ رک سکتا ہے نہ سست ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ چین سے ماہرین کا وفد پاکستان آرہا ہے جو کہ وزیرِ اعظم کے دورۂ بیجنگ کے دوران طے پانے والے معاملات پر عمل درآمد کا روڈ میپ طے کرے گا۔
SEE ALSO: شہباز شریف کا دورۂ چین: 'پاکستان نے سیکیورٹی سے متعلق یقین دہانیاں کرائی ہیں'انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ پاکستانی سائنسدان چین میں زراعت پر تحقیق اور نئی جدید تربیت حاصل کریں گے اور اسی طرح دو لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تربیت دی جائے گی۔
احسن اقبال کہتے ہیں کہ پاکستان امریکہ و چین کے درمیان تعلقات میں توازن رکھنا چاہتا ہے اور اس ضمن میں زیادہ مشکل نہیں ہوگی کیوں کہ اسلام آباد دونوں ملکوں سے روابط کی ایک تاریخ رکھتا ہے۔
ان کے بقول، پاکستان کی کوشش ہے کہ تمام دوست ممالک سے تعلقات کو بڑھایا جائے جس کی بنیاد جیو اکنامکس ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ تجارت کا فروغ اور ٹیکنالوجی کا حصول چاہتا ہے اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی کا سافٹ ویئر امریکہ سے حاصل کیا جائے۔