خیبر پختونخوا کے 13 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ اتوار کو مکمل ہو گیا ہے۔ اب تک جمعیت علما اسلام (ف) کو کئی شہروں کے میئر اور تحصیل کونسل کے چیئرمین کے عہدوں پر برتری حاصل ہے اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) دوسرے نمبر پر ہے۔
انیس دسمبر 2021 کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں امیدوار کے انتقال , پر تشدد واقعات اور دیگر وجوہات کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے میئر، چیئرمین اور نیبر ہوڈ کونسل کی نشستوں پر انتخابات ملتوی کر دیے تھے۔
پہلے مرحلے کےضمنی انتخابات کی تکمیل پر 66 تحصیل اور سٹی کونسلز کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج سامنے آ چکے ہیں جن کے مطابق جمعیت علماء اسلام (ف) 23 نشستوں کے ساتھ سب سے آگے ہے جب کہ پاکستان تحریک انصاف 18 نشستیں لے کر دوسرے نمبر پر رہی۔ 10 نشستیں آزاد امیدواروں نے حاصل کیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کو سات اور مسلم لیگ (ن) کو 3 نشستیں ملیں۔ جماعت اسلامی اور حال ہی میں بننے والی تحریک اصلاحات کو دو، دو نشستیں ملیں اور پاکستان پیپلز پارٹی صرف ایک نشست پر کامیاب ہو سکی۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے آخری الیکشن کا سب سے غیر متوقع نتیجہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے آبائی ضلعے ڈیرہ اسماعیل خان کے میئر کے عہدے پر دیکھنے میں آیا۔
اتوار کو ہونے والی پولنگ کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق حکمران جماعت پی ٹی آئی نے ڈیرہ اسماعیل خان سے میئر کی نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔
اس نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار عمر امین گنڈاپور نے 63 ہزار 753 ووٹ لے کر میدان مار لیا جن کے مدِ مقابل جے یو آئی (ف)کے امیدوار محمد کفیل احمد 38 ہزار 891 ووٹ کے دوسرے نمبر پر رہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر فیصل کریم کنڈی 32 ہزار 788 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔
اس نشست پر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار عمر خطاب شیرانی کے قتل کے باعث 19 دسمبر کو انتخابات نہیں ہوسکے تھے ۔
ڈیرہ اسماعیل خان کو جمعیت علما اسلام (ف) کا انتخابی گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن عام انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات میں بھی یہاں جے یو آئی(ف) کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈیرہ اسماعیل خان سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کی میئر کی نشست پر کامیابی پر پارٹی کارکنان جشن بھی منا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر اسد عمر نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں جے یو آئی ( ف)پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گھر سنبھل نہیں رہا اور مولانا حکومت گرانے نکلے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے سٹی میئر کے عہدے پر انتخابات میں عمر امین گنڈا پور کے علاوہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے مفتی کفیل نظامی، پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی اور 17 دیگر امیدوار میدان میں تھے ۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق اس اہم نشست پر انتخابی مہم کے دوران نہ صرف وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور سمیت کئی ایک سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں پر الیکشن کمیشن نے جرمانے اور پابندیاں عائد کی تھیں بلکہ برتری حاصل کرنے والے عمر امین گنڈا پور کو نا اہل بھی قرار دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمر امین گنڈا پور کو نااہل قرار دینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔
تحریک انصاف کے امیدوار ڈیرہ اسماعیل خان کے علاوہ بنوں،کرک اور نوشہرہ کے تحصیل چیئرمین کے عہدوں پر بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے والوں میں وفاقی دفاع پرویز خٹک کے صاحب زادے اسحٰق خٹک بھی شامل ہیں جو آبائی ضلعے نوشہرہ کے تحصیل چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔
جے یو آئی( ف) نے پشاور کے سٹی میئر کی نشست پر اپنی کامیابی برقرار رکھی ہے۔ اس نشست کے چھ پولنگ اسٹیشنز پر اتوار کو دوبارہ پولنگ ہوئی جسے اس سے قبل 19 دسمبر کو لڑائی جھگڑوں کے واقعات رپورٹ ہونے کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا۔
اتوار کو پولنگ کے بعد سامنے آنے والے غیر سرکاری نتائج کے مطابق جے یو آئی ( ف) کے امیدوار زبیر علی پہلے نمبر پر برقرار ہیں جب کہ دوسرا نمبر تحریک انصاف کے رضوان بنگش کا ہے۔
بکاخیل میں تحریک انصاف کے امیدوار ہارون الرشید کو الیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دیا تھا۔ اس نشست پر بھی جے یو آئی (ف) کے امیدوار کامیاب قرار دیے گئے ہیں البتہ بنوں اور ملحقہ کرک میں تحصیل چیئرمین کی دو نشستوں سے تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
قبائلی ضلعے باجوڑ میں جماعت اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی صاحب زادہ ہارون الرشید کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیدوار کو یہاں کامیابی ملی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی سے منسلک محمد فضل الرحمٰن نے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد سے گفتگو میں کہا کہ وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور گزشتہ آٹھ برس سے علاقے کی سیاست میں متحرک ہیں۔ انہوں نے پہلے صوبائی اور اب وفاقی وزیر کی حیثیت سے ضلعے کی ترقی میں بہت کچھ کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح علی امین گنڈاپور کے ایک اور بھائی فیصل امین گنڈا پور بھی صوبائی کابینہ کے رکن ہیں۔اسی وجہ سے بلدیاتی انتخابات میں ان کے بھائی عمر امین گنڈاپور کو کامیابی ملی ہے جب کہ حزبِ اختلاف میں ہونے اور اختلافات کے باعث جے یو آئی (ف) اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو کامیابی نہیں مل سکی ۔
سیاسی مبصر طارق افغان کہتے ہیں کہ جب تک حزبِ اختلاف میں شامل جماعتوں کے رہنما متحد نہیں ہوتے تب تک تحریک انصاف کو بلدیاتی یا پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل ہوتی رہے گی۔
صوبائی وزیر شوکت علی یوسف زئی کا مؤقف ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان مقبول ترین رہنما اور ان کی جماعت تحریک انصاف مقبول ترین سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ ان کو کوئی بھی شکست نہیں دے سکتا۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ووٹنگ 31 مارچ کو ہو گی جس کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔31 مارچ کو ہونے والی پولنگ کے نتائج چار اپریل کو جاری ہوں گے۔