پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) نے غیر پارلیمانی حیثیت برقرار رکھتے ہوئے نئے منشور کا اعلان کر دیا ہے۔
پشتون تحفظ تحریک کے بانی اراکین میں شامل ڈاکٹر سید عالم محسود اور عبداللہ ننگیال نے پیر کو وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں نیا منشور بنانے کی تصدیق کی۔
اُنہوں نے کہا کہ منشور کو آئندہ چند دنوں میں تحریک کے مرکزی رہنماؤں پر مشتمل ایک کمیٹی کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
منشور کے تحت تنظیم مکمل طور پر غیر پارلیمانی ہوگی اور تحریک سے منسلک افراد کے کسی بھی انتخابی عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ منتخب قیادت ہی کرے گی۔
مجوزہ منشور کے مطابق کسی بھی سیاسی جماعت، نظریے، تحریک اور زندگی کے کسی بھی شعبے بشمول سرکاری، نیم سرکاری اور خود مختار اداروں سے منسلک افراد پشتون تحفظ تحریک کے رُکن بن سکتے ہیں۔
نئے منشور کے مطابق پشتون تحفظ تحریک ایک غیر پارلیمانی مزاحمتی تحریک ہوگی۔ کسی بھی قسم کے انتخابات میں تنظیم کے اجتماعی طور پر یا تنظیم میں شامل اراکین یا عہدے داروں کے حصہ لینے کے بارے میں فیصلہ مرکزی کمیٹی ہی کرے گی۔
منشور کے تحت پی ٹی ایم کی سیاسی جدوجہد اور مزاحمت کا محور ملک بھر کے پشتونوں کے سیاسی، معاشی، انتظامی، سیکیورٹی اور سماجی حقوق اور مفادات کا تحفظ ہو گا۔
منشور میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دیگر قومیتوں بلوچ، سندھی اور سرائیکیوں کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کی جائے گی۔
عبداللہ ننگیال اور ڈاکٹر سید عالم محسود نے بتایا کہ منشور کے بنیادی ڈھانچے اور خدوخال پر اتفاق رائے ہو گیا ہے اور بہت جلد اسے منظوری کے لیے مرکزی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
ڈاکٹر سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ اس منشور کے تحت پشتون تحفظ تحریک کا انتخابی عمل سے کوئی سروکار نہیں ہوگا اور کوئی ممبر ازخود انتخابات میں حصہ لیناچاہتا ہے تو اسے ایک حلف نامے پر دستخط کرنا ہوں گے کہ وہ کسی بھی صورت میں تحریک کی پالیسیوں سے روگردانی نہیں کرے گا۔
پشتون قوم پرست سیاسی کارکن لطیف خان نے کہا کہ نئے منشور کے تحت تحریک نہ صرف پشتونوں کے مسائل اور مشکلات کے حل بلکہ پشتونوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور مالی و جانی نقصان کے لیے کمیشن کے قیام اور ازالے کی بھی کوشش کرے گی۔
خیال رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) 2018 میں اس وقت قائم کی گئی تھی جب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کو مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں پی ٹی ایم کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
گزشتہ سال 26 مئی کو پی ٹی ایم رہنما اور اراکینِ قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر اپنے دیگر ساتھیوں سمیت پی ٹی ایم کے دھرنے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے تو انہیں شمالی وزیرستان میں خڑ کمر کے مقام پر ایک چیک پوسٹ پر روکا گیا تھا۔ سیکیورٹی اہلکاروں سے مذاکرات کے بعد ان کو آگے جانے دیا گیا تاہم اسی دوران مبینہ طور پر سیکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ شروع کر دی تھی۔
واقعے سے متعلق سیکیورٹی حکام کا مؤقف تھا کہ پی ٹی ایم کے قافلے میں شامل افراد نے سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی جس پر سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے جوابی فائرنگ کی گئی تھی۔
پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے مطابق اس واقعے میں 15 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ واقعے کا مقدمہ محسن داوڑ اور علی وزیر کے خلاف درج کیا گیا تھا جس میں تین افراد کے قتل اور 15 افراد کے زخمی ہونے کی تفصیلات تھیں۔
پاکستان کی فوج پی ٹی ایم کو بیرونی فنڈنگ پر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث تنظیم قرار دیتی رہی ہے۔ گزشتہ سال ایک پریس کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پی ٹی ایم کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔
گزشتہ عرصے کے دوران حکومتی وفود اور پی ٹی ایم رہنماؤں کے مابین مذاکرات کے بھی کئی دور بھی ہو چکے ہیں۔