پنجاب اسمبلی نے 'تحفظِ بنیادِ اسلام' کے عنوان سے ایک مسودۂ قانون کثرتِ رائے سے منظور کیا ہے جس میں دینۃ اسلام کی حفاظت اور پیغمبرِ اسلام اور مقدس شخصیات کی عزت و ناموس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
بل اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں بدھ کو منظور کیا گیا۔
بل کی منظوری کے بعد گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ یہ بل دینِ اسلام کی حفاظت اور سربلندی کے لیے سنگِ میل ثابت ہو گا لہذٰا وفاق اور دیگر صوبے بھی اس معاملے میں پنجاب کی تقلید کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ خصوصی طور پر اس بل کے سیکشن نمبر تین شق ایف کو پاکستان پینل کوڈ 1860ء کی شق نمبر 295 سی میں شامل کیا جائے۔
چوہدری پرویز الہٰی کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک سال قبل تین ایسی کتابوں کا معاملہ سامنے آیا جن میں پیغمبر اسلام، صحابہ اور دیگر مقدس شخصیات کے بارے میں نہایت گھٹیا اور توہین آمیز زبان استعمال کی گئی۔
تحفظ بنیاد اسلام بل میں کیا ہے؟
بل میں کہا گیا ہے کہ جہاں بھی پیغمبر اسلام کا ذکر آئے گا وہاں ان کے نام کے ساتھ خاتم النبین (آخری نبی) اور صلی اللہ علیہ و سلم لکھنا لازمی ہو گا۔ ایکٹ کے مطابق پیغمبرِ اسلام، اہل بیت، خلفائے راشدین اور صحابہ کے بارے میں توہین آمیز کلمات قابل گرفت ہوں گے۔
اسی طرح انبیا، فرشتوں، تمام الہٰامی کتب قرآن مجید، زبور، تورات، انجیل اور دینِ اسلام کے بارے میں متنازع اور توہین آمیز الفاظ پر بھی قانون حرکت میں آئے گا۔
پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والے بل کے مطابق توہینِ مذہب سے متعلق کسی بھی قسم کی خلاف ورزی پر پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کے علاوہ تعزیراتِ پاکستان کی مروجہ دفعات کے تحت بھی کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ مختلف کتب میں مذاہب خصوصاً اسلام کے بارے میں نفرت انگیز مواد کی اشاعت کی روک تھام ہو گی۔
بل کی منظوری کے بعد توہین آمیز یا گستاخانہ مواد کا مکمل طور پر تدارک ممکن ہو سکے گا۔ اس بل کی منظوری کے بعد ایسی کتب یا کوئی مواد جس میں پیغمبر اسلام، صحابہ، خلفائے راشدین، اہل بیت اور دیگر مقدس شخصیات کی توہین کا پہلو ہو اس کی اشاعت یا تقسیم پر پابندی ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیا اِس بل کی ضرورت تھی؟
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کی رائے میں بہت مناسب ہوتا اگر یہ قانون پاس کرنے سے پہلے اِسے اسلامی نظریاتی کونسل کے سامنے رکھا جاتا۔
اُن کے بقول ملک میں جب ایک ادارہ موجود ہے تو اس کی رائے کو شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے 'پلڈاٹ' کے صدر نے کہا کہ پیغمبرِ اسلام کے نام کے ساتھ اضافی کلمات پاکستان میں پہلے سے ہی لکھے اور ادا کیے جاتے ہیں۔
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ قانون کے اطلاق کے بعد اس قانون سازی کے اثرات واضح ہوں گے۔ اُن کے بقول توہین مذہب کے حوالے سے قوانین تو پہلے سے ہی موجود ہیں لیکن ان کے غلط استعمال کی شکایات بھی عام ہیں۔ لہذٰا یہ قانون بھی جب سامنے آئے گا تو اس کے بھی غلط استعمال کا امکان ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس نوعیت کی قانون سازی کی وجہ سے ایک مذہبی ریاست بن چکا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 97 فی صد مسلمان بستے ہیں۔ لہذٰا وہ تو پیغمبر اسلام کی گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ لہذٰا اس قانون کی ضرورت نہیں تھی۔
اُن کے بقول جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے تو انہیں یہ اختیار نہیں کہ وہ مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کریں لیکن اُن سے یہ توقع بھی نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان مقدس شخصیات کو وہ درجہ دیں جو مسلمان دیتے ہیں۔
ڈاکٹر مہدی حسن کے بقول اس بل سے پہلے بھی ایک قانون موجود ہے، جس میں بارہا تبدیلی کی آوازیں بلند ہوتی رہی ہیں۔ لیکن طاقت ور مذہبی طبقہ اس قانون میں تبدیلی نہیں ہونے دیتا۔
اُن کے بقول پاکستانی معاشرہ پہلے ہی منقسم ہے اور اس طرح کی قانون سازی سے یہ مزید تقسیم ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
کیا مسلم لیگ (ق) اپنا مذہبی ووٹ بینک بڑھانا چاہتی ہے؟
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی پاکستان میں حکمراں اتحاد میں شامل جماعت مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنما بھی ہیں۔
چوہدری پرویز الہٰی اس سے قبل بھی مذہبی معاملات پر اپنی رائے دے چکے ہیں۔ اُنہوں نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی مخالفت کے علاوہ تبلیغی جماعت پر کرونا پھیلانے کے الزامات پر بھی سخت ردعمل دیا تھا۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ سابق حکمراں جماعت مذہبی کارڈ استعمال کر کے اپنا ووٹ بینک بڑھانا چاہتی ہے۔
احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف ادوار میں تمام سیاسی جماعتیں مذہب کارڈ کھیلتی رہی ہیں۔
اُن کے بقول یہ تو قیامِ پاکستان کے وقت سے ہو رہا ہے۔ مختلف معاملات آتے رہے ہیں ہر جماعت اپنے سیاسی مفادات کے لیے کسی نہ کسی موقع پر مذہب کو استعمال کرتی رہی ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستان میں اب تک ہونے والے عام انتخابات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔ اُن کے بقول اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کی اکثریت بانی پاکستان محمد علی جناح کے نظریے سے اتفاق کرتی ہے کہ سیاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب قوانین اور اس کے استعمال پر عالمی سطح پر بھی ردعمل سامنے آتا رہا ہے۔ پاکستان میں سابق گورنر پنجاب سمیت اہم شخصیات ان قوانین میں تبدیلی کے لیے سرگرم رہیں لیکن اُنہیں اس کی پاداش میں قتل کر دیا گیا۔
ڈاکٹر مہدی حسن کی رائے میں مذہبی قوانین میں نظر ثانی نہیں ہو سکتی کیوں کہ پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کا اثر بہت زیادہ ہے۔
اُن کے بقول ایسے قوانین کے معاملے میں ماضی کی تمام حکومتوں اور موجودہ حکومت سب کا رویہ معذرت خوانہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں مذہبی قوانین کی تاریخ
عدالت عالیہ کے وکیل اور قانون دان آفتاب مقصود سمجھتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں مذہبی قوانین اور اُن کے تحت سنائی جانے والی سزاؤں کے بارے میں بات کرنا ایک مشکل کام ہے۔
اُن کے بقول یہاں مذہبی جماعتوں اور مذہبی ذہن رکھنے والے افراد کا اثر بہت زیادہ ہے۔ ماہرِ قانون نے بتایا کہ برِصغیر میں مذہبی قوانین برطانوی دورِ حکومت کے دوران 1860 میں متعارف کرائے گئے تھے۔ 1927 تک برقرار رہنے والے ان قوانین میں مختلف سزائیں تجویز کی گئی تھیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے آفتاب مقصود نے بتایا کہ اِن قوانین میں پاکستان بننے کے بعد 1980 سے لے کر 1986 تک سابق فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں بہت کام ہوا۔
اُن کا کہنا تھا کہ 1986 میں توہین مذہب قانون میں ایک شق شامل کی گئی جس کے تحت توہین مذہب کے مرتکب شخص کو سزائے موت تجویز کی گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
آفتاب مقصود نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیریں رحمان نے 2010 میں قومی اسمبلی میں ایک بل متعارف کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جب بھی کسی پر توہین مذہب کا الزام لگے تو اُس کی تحقیقات ایک اعلٰی پولیس افسر سے کرائی جائے۔ لیکن اس بل پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
صوبہ پنجاب کے وزیر اعلٰی سردار عثمان بزدار نے بھی بل کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ایکٹ سے مذہبی ہم آہنگی میں اضافہ ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ 'دی پنجاب تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ' سے نفرت انگیز مواد کی اشاعت کی روک تھام ہو گی۔