پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے اتوار کو بلایا گیا ایوان کا اجلاس پولیس کی مبینہ مداخلت، تنازعے اور الزامات کی بوچھاڑ کے بعد ایک بار پھر چھ جون تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔
پنجاب اسمبلی کااجلاس پینل آف چیئرمین وسیم بادوازئی کی زیر صدارت ہو ا اور اجلاس شروع ہوتے ہی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف قرارداد کا ذکر کیا گیا۔
پینل آف چیئرمین نے حکومتی اتحاد کی جانب سے عدم اعتماد پر جواب نہ ملنے پر اسپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد نمٹا دی۔
اس سے قبل اجلاس 30 مئی کو بلایا جانا تھا تاہم پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے 25 منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے کے بعد ہفتے کو اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے اجلاس اتوار کی صبح 12 بجے بلانے کا اعلان کر دیا تھا۔
اجلاس کے ایجنڈے میں اسپیکر پرویز الہٰی اور ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ شامل تھی۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ تحریکِ انصاف کے 25 اراکین کے منحرف ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے پانچ نئے اراکین کا حلف بھی لیں گے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد تحریکِ انصاف کے 25 منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے سے پنجاب اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر تحریکِ انصاف کے پانچ نئے اراکین کا اضافہ ہو جائے گا۔
اتوار کی صبح پنجاب اسمبلی کے داخلی راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی تھی اور اراکین سمیت میڈیا نمائندگان کو اسمبلی کے اندر جانے سے روک دیا گیا۔
بعدازاں جب اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی ایوان میں پہنچے تو اسمبلی کے دروازے کھول دیے گئے۔
اسپیکر اسمبلی نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور اُن کے صاحب زادے حمزہ شہباز کے ایما پر پنجاب اسمبلی کی تالہ بندی کی گئی، تاہم آج ہر صورت اجلاس ہو گا اور رکاوٹ ڈالنے والوں پر آرٹیکل چھ لگے گا۔
دوسری جانب حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے الزام عائد کیا کہ چوہدری پرویز الہٰی اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں اور اُن کے غنڈوں نے اسمبلی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) عطا تارڑ نے نیوز کانفرنس میں پرویز الہٰی پر الزام لگایا کہ اُنہوں نے اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے کی عادت بنا لی ہے۔عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعلیٰ کی سیکیورٹی کو بھی پنجاب اسمبلی میں جانے نہیں دیا جا رہا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایوان کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔
عطا تارڑ کے بقول اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد آئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما کا مؤقف تھا کہ تحریکِ انصاف کے 25 منحرف اراکین کو ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا ۔
صحافیوں سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی ضرور جائیں گے اور ان کی کسی سے ذاتی لڑائی نہیں ہے۔
سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس پولیس کی یلغار سے روکنا آئین کی پامالی ہے۔
فواد چوہدری کا سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف پنجاب کی انتظامیہ اس غنڈہ گردی کی شدید مذمت کرتی ہے۔
گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے بھی پنجاب اسمبلی کے اطراف پیدا شدہ صورت حال پر تنقید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ آج پھر سسلین مافیا پنجاب اسمبلی میں غنڈہ گردی اور آئین و قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے حوالے سے سوشل میڈیا پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں باپ بیٹا خانہ جنگی کرا کر سیاسی شہید بننا چاہتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی گئی ہے۔ جب کہ ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کے خلاف تحریکِ انصاف اور اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اسپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف جمع کرائی گئی تحریکِ عدم اعتماد میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی پر اس ایوان کی اکثریت کا اعتماد نہیں رہا ہے۔
گزشہ ماہ پنجاب اسمبلی میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے بلایا گیا اجلاس بھی ہنگامہ آرائی کی نذر ہو گیا تھا۔
اجلاس کے دوران پولیس ایوان میں داخل ہو گئی تھی اور اراکینِ اسمبلی اور پولیس کے درمیان تصادم بھی ہوا تھا۔
البتہ بعدازاں تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) نے ایوان کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا تھا جس کے بعد حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر پنجاب کے وزیرِ اعلٰی منتخب ہوئے تھے۔
تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) نے حمزہ شہباز کے انتخاب کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عدالت سے رُجوع کر رکھا ہے۔