پنجاب میں 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات نہ صرف صوبے کی قسمت کا فیصلہ کریں گے بلکہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان نتائج کے اثرات وفاقی حکومت پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان انتخابات میں کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں نے بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلائی ہے۔البتہ سب کی نظریں دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریکِ انصاف(پی ٹی آئی) پر ہیں اور ان دونوں کی کوشش ہے کہ ان کا دیا گیا بیانیہ عوام میں ترویج پا سکے۔
پنجاب حکومت کا مستقبل کیا ہوگا؟ حمزہ شہباز کی حکومت بچ سکے گی یا نہیں اور کیا چوہدری پرویز الٰہی وزیرِ اعلیٰ پنجاب بن پائیں گے؟ یہ سب تو الیکشن کے نتائج کے بعد ہی واضح ہوگا البتہ سیاسی جماعتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ رائے دہندگان ان کے حق میں ووٹ دیں تاکہ ان کا بیانیہ کامیاب ہو سکے اور وہ انتخابات جیت سکیں۔
ان ضمنی انتخابات کے لیےچلائی جانے والی انتخابی مہم جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب ختم ہو گئی ہے، جس کے بعد اب کوئی بھی امیدوار اپنے حلقے میں انتخابی مہم نہیں چلا سکتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو قانون کی خلاف ورزی پر الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت قانونی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم؟
پنجاب اسمبلی میں ارکان کی مجموعی تعداد 371 ہے، جن میں سے تحریکِ انصاف کے منحرف ارکان کو نکال کر اس وقت ایوان 346 ارکان پر مشتمل ہے۔
مزید پڑھیے پنجاب کے ضمنی انتخابات کا حلقہ بہ حلقہ جائزہکسی بھی جماعت کو اپنا وزیرِاعلیٰ بنانے کے لیے 186 ارکانِ اسمبلی کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایوان میں تحریک انصاف کی مجموعی طور پر 163 نشستیں ہیں جب کہ 10 نشستیں مسلم لیگ(ق) کی ہیں۔ ان دونوں اتحادی جماعتوں کی کل نشستوں کی تعداد173 ہے۔
دوسری جانب حکمران اتحاد مسلم لیگ(ن) کے 165، پیپلزپارٹی کے 7، چار آزاد امیدوار اور ایک رائے حق پارٹی کے رکن پر مشتمل ہے۔ جن کی مجموعی تعداد 177 بنتی ہے۔
مسلم لیگ(ن) کو یہ اتحاد برقرار رکھنے اور صوبے میں اپنی حکومت قائم رکھنے کے لیے 9 نشستوں کی ضرورت ہے، البتہ ضمنی انتخابات میں 9 نشستیں نہ ملنے پر اس کے لیے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ برقرار رکھنا نا ممکن ہو جائے گا۔
اسی طرح پی ٹی آئی کو چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے 13 نشستیں درکار ہیں اور اگر وہ یہ حاصل نہیں کر پاتی تو پنجاب پر اس کی گرفت کمزور ہوجائےگی۔
'ضمنی انتخابات کے نتائج صورتِ حال تبدیل کر سکتے ہیں'
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں کوئی بڑا اپ سیٹ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر کامیابی پاکستان مسلم لیگ( ن) کے حصے میں آتی ہے تو موجودہ سیٹ اَپ برقرار رہے گا اور اِس سے وفاق کو بھی تقویت ملتی رہے گی۔ البتہ اگر تحریکِ انصاف زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوجاتی ہے تو مبصرین کی رائے میں پنجاب کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوسکتا ہے۔ عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے پر غور کرسکتے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے نتائج ملک بھر میں اور خاص طور پر پنجاب میں تمام تر سیاسی صورتِ حال کو تبدیل کرسکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگر پی ٹی آئی جیت جاتی ہے تو پنجاب میں حکومت کا سیٹ اَپ تبدیل ہو جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ صوبے میں پرویز الٰہی کی حکومت آ جائے گی۔
ان کے بقول پرویز الٰہی عمران خان کی مشاورت سے عام انتخابات کی طرف بھی جا سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو وفاق میں مسلم لیگ(ن) کی مخلوط حکومت بھی خطرےسےدوچار ہوسکتی ہے البتہ اگر ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) زیادہ نشستیں جیت جاتی ہے تو پھر موجودہ سیٹ اپ ہی چلتا رہےگا۔
'بڑا اپ سیٹ عام انتخابات کی طرف لے جائے گا'
البتہ سینئر صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ یہ صرف ضمنی انتخابات نہیں ہو رہے کیوں کہ ان انتخابات کے نتائج کا انحصار نہ صرف پنجاب حکومت بلکہ وفاقی حکومت پر بھی ہوگا۔
اُن کے مطابق اگر کوئی بڑا اَپ سیٹ ہو جاتا ہے یعنی پی ٹی آئی جیت جاتی ہے تو ملک عام انتخابات کی طرف بڑھے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومتی اتحاد جب حزبِ اختلاف میں تھا تو قبل از وقت صاف اور شفاف انتخابات کی بات کرتا نظر آتا تھا، جس پر اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کہتے تھے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اگلے پانچ سال بھی اُن کے ہیں۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ جب سے پانامہ پیپرز آئے ہیں پاکستان بحرانی صورتِ حال کا شکار ہے۔اس کے علاوہ پاکستان میں بڑھتے سیاسی انتشار کی وجہ سے معیشت سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔
وہ کہتے ہیں کہ اس ساری صورتِ حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک نئے مینڈیٹ والی حکومت عمل میں لائی جائے، جو مؤثر اور مضبوط فیصلے کرسکے۔
عام انتخابات سے متعلق سلمان غنی کا کہنا تھا کہ سیاسی قوتوں کو انتخابات سے قبل کچھ قواعد طے کرنے چاہئیں۔ شکست کھانے والاا اپنی شکست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں احتجاج کی سیاست شروع ہوتی ہے اور ملک کی معیشت سنبھل نہیں پاتی۔