پاکستان کے صوبے پنجاب میں مبینہ توہینِ مذہب پر ہجوم کے ہاتھوں شہری کی ہلاکت کا ایک اور واقعہ پیش آیا ہے جس کی ابتدائی رپورٹ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو پیش کر دی گئی ہے۔
پنجاب کے ضلع خانیوال کے علاقے تلمبہ میں ہفتے کو ہجوم نے ایک شخص پر توہینِ مذہب کا الزام لگاتے ہوئے اسے تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل راؤ سردار علی خان نے اتوار کو اس واقعے کی رپورٹ وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کو پیش کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق واقعے میں 33 افراد نامزد جب کہ 300 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں سنگین جرائم اور دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
پولیس نے واقعے میں ملوث 62 مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے جن میں مرکزی ملزمان بھی شامل ہیں۔ مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس حکام نے بتایا ہے کہ ملزمان کی شناخت اور ان کے کردار کا تعین واقعے کی دستیاب فوٹیجز اور فرانزک جائزے کی مدد سے کیا جائے گا۔
مزید پڑھیے: توہینِ مذہب کا الزام؛ 75 برس میں 1415 مقدمات، 89 افراد ماورائے عدالت قتلپولیس حکام کا کہنا تھا کہ واقعے کے بارے میں سوشل میڈیا پر خبریں آنے کے بعد سے ملزمان روپوش ہو گئے ہیں جن کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ٹیمیں چھاپے مار رہی ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کا خفیہ آپریشن ہفتے کو رات بھر جاری رہا اور اب بھی ٹیمیں فیلڈ میں موجود ہیں۔
واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے پولیس حکام نے کہا کہ ہفتے کو تلمبہ کے گاؤں جنگل ڈیرہ میں مغرب کی نماز کے بعد مبینہ طور پر اعلانات ہوئے کہ ایک شخص نے قرآن کے اوراق پھاڑ کر جلا دیے ہیں۔ جس پر سینکڑوں افراد جمع ہو گئے اور اس شخص کو تشدد کر کے مار ڈالا۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ واقعے کے فوراً بعد پولیس نے گاؤں پہنچ کر ملزم کو اپنی حراست میں لے لیا تھا لیکن مشتعل ہجوم نے اسے پولیس کی حراست سے بھی چھڑا لیا۔
پولیس حکام کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملزم بظاہر بے قصور تھا اور وہ شور مچاتا رہا کہ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ لیکن کسی نے اس کی بات نہیں سنی، اسے پہلے درخت سے لٹکایا اور پھر اینٹیں مار کر ہلاک کر دیا۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔
ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں عمران خان نے کہا کہ کسی فرد یا گروہ کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش قطعاً برداشت نہیں کی جائے گی اور ہجوم کے تشدد کو سختی سے کچلیں گے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ انہوں نے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔
واقعے کے بارے میں وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ ایسے واقعات عشروں سے نافذ تعلیمی نظام کا حاصل ہیں۔ یہ مسئلہ قانون کے نفاذ کے ساتھ معاشرے کی تنزلی کا بھی ہے۔
فواد چوہدری کے بقول انہوں نے بارہا اپنے نظامِ تعلیم میں تباہ کُن شدّت پسندی کی جانب توجہ دلائی ہے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ محمد طاہر اشرفی سے رابطہ کیا تو وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔
البتہ اپنے ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ خانیوال میں ہجوم کی جانب سے ایک شخص کے قتل کا واقعہ قابلِ مذمت اور سراسر ظلم ہے۔ تمام مکاتبِ فکر کی قیادت کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ واقعے کی مزید تفصیلات ایک پریس کانفرنس میں بتائی جائیں گی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے الزامات پر ہجوم کے ہاتھوں کسی شخص کی ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں مشتعل افراد نے توہینِ مذہب کے الزام پر ایک سری لنکن شہری کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
مزید پڑھیے: سانحہ سیالکوٹ: ’ہمارا معاشرہ اس قدر ظالم کیوں ہو رہا ہے؟‘
اِس سے قبل پنجاب کے ضلع خوشاب میں بھی مبینہ توہینِ مذہب پر ایک بینک مینیجر کو قتل کر دیا گیا تھا۔
پاکستان میں توہینِ مذہب کے الزامات اور ان پر ہجوم کی جانب سے پرتشدد ردعمل کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جس پر کئی سنجیدہ حلقے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ مختلف عالمی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی ان واقعات کے خلاف آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔