راولپنڈی کے علاقے روات میں محنت کش کا گردہ نکال کر فروخت کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے جس میں ایک گھر میں قائم اسپتال میں بیرون ملک سے آنے والے افراد سے لاکھوں روپے لے کر انہیں غیرقانونی طور پر گردے فروخت کیے جا رہے تھے۔
راولپنڈی پولیس نے ہفتے کو ایک ملزم کو گرفتار کیا ہے جس کے ساتھ ایک متاثرہ شخص موجود تھا جس کا چند گھنٹے قبل گردہ نکال لیا گیا تھا۔
اس حوالے سے روات کے تھانے کے ایس ایچ او طارق گوندل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ایک نیٹ ورک تھا جس میں ڈاکٹرز اور دیگر افراد بھی شامل ہیں۔
گردوں کی غیر قانونی فروخت کے مبینہ نیٹ ورک کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ افراد لاکھوں روپے لے کر غیر قانونی طور پر گردے ٹرانسپلانٹ کر رہے تھے۔ ایک ملزم کی گرفتاری کے بعد ڈاکٹر سمیت دیگر ملزمان فرار ہو چکے ہیں۔
گروہ کی نشان دہی
تھانہ روات میں درج ایف آئی آر کے مطابق پنجاب ہائی ویز پیٹرولنگ پولیس کے سب انسپکٹر سیاب اعوان نے تھانہ روات پولیس کو آگاہ کیا تھا کہ وہ جاپان روڈ پر ڈیوٹی پر موجود تھے کہ ایک گاڑی کو تلاشی کے لیے روکا گیا تو ڈرائیور ثاقب علی نے فرار ہونے کی کوشش کی جب اس گاڑی کو روکا گیا، تو ڈرائیور نے کہا کہ سواری ساتھ ہے۔ جلدی میں ہوں ۔
پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ پانچ ہزار روپے کا نوٹ بھی رشوت میں دیا گیا جس کو قبضے میں لیا۔ گاڑی کے عقب میں چادر اوڑھے ایک شخص موجود تھا جب اس کو چیک کیا گیا، تو اس کے بازو پر کینولا اور پیٹ کی بائیں جانب سفید پٹی لگی ہوئی تھی۔
اس شخص نے اپنی شناخت جڑانوالہ کے رہائشی اعظم کے طور پر کرائی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ ان پڑھ شخص ہے اور اینٹوں کے بھٹے پر محنت مزدوری کرتا ہے۔
اعظم کے بقول وہ بھٹے کے مالک عبدالرحمٰن سے قرضہ لیتا رہا جو وہ واپسی کا تقاضا کر رہا ہے۔ اپنے بڑے بھائی سے بات کی تو اس نے مدد کے لیے ثاقب علی اور عمران نامی دو لوگوں سے رابطہ کرایا۔ جنہوں نے راولپنڈی بلایا اور 10 فروری کو نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ایک مکان پر لے گئے ۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہاں انہیں انجیکشن لگائے گئے جس کے بعد ان کو ہوش نہ رہا اور رات گئے ہوش آیا تو بازو پر کینولا لگا ہوا تھا جب کہ پیٹ میں شدید درد بھی تھا۔
اس حوالے سے اعظم نے دریافت کیا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے، جس پر ثاقب نے ان کی بھائی سے بات کرائی اور کہا کہ تمھاری مدد کے لیے دو لاکھ روپے بھائی کو بھیج دیے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ تمھارا ایک گردہ نکال لیا ہے۔تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔
اعظم کے مطابق اس گھر میں ساتھ والے بیڈ پر عربی لباس میں لیٹے شخص نے مجھے 40 ہزار روپے بھی دیے۔
اعظم کا کہنا تھا کہ ایک رات وہ وہیں رہے جب کہ وہاں موجود افراد ان کو انجیکشن لگاتے رہے۔ جس وقت پولیس نے ان کی گاڑی کو روکا تھا اس وقت وہ ڈرائیور ثاقب علی ان کو واپس گھر بھیجنے کے لیے بس اڈے پر چھوڑنے جا رہا تھا۔
ملزم سے غیر ملکی کرنسی برآمد
پولیس نے ثاقب علی کی تلاشی لی تو اس کی جیب سے چار لاکھ 95 ہزار روپے اور 50 عمانی ریال برآمد ہوئے جب کہ گاڑی کی تلاشی لینے پر سیٹ کے نیچے سے بھی پانچ لاکھ روپے مزید برآمد ہوئے۔
حکام کے مطابق پولیس نے ملزم ثاقب کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے جب کہ اعظم کا طبی معائنہ کیا جا رہا ہے۔ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان گردوں کی پیوند کاری کرنے والا منظم گروہ ہے۔ ملزم ثاقب علی کے خلاف ایف آئی اے میں شکایات موجود ہیں۔ اس کے موبائل فون سے گردوں کی پیوند کاری کی متعدد ویڈیوز و تصاویر بھی برآمد ہوئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایس ایچ او تھانہ روات طارق گوندل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس نیٹ ورک میں شامل افراد کی شناخت ہوچکی ہے البتہ ثاقب علی کی گرفتاری کے بعد یہ سب مفرور ہیں۔ ان کی گرفتاری کے لیے ان کے موبائل فون کی مدد سے لوکیشن ٹریس کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ شخص اعظم اس وقت پولیس کے پاس ہی موجود ہے اور اس کا دفعہ 164 کا بیان ریکارڈ کیا جارہا ہے جس کے بعد ان تمام افراد کے خلاف باقاعدہ کارروائی کی جائے گی۔
بحریہ ٹاؤن کے ایک گھر میں اسپتال قائم
ان کا کہنا تھا کہ گردوں کی پیوند کاری کا تمام کام راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن فیز -ایٹ کے ایک گھر میں ہو رہا تھا۔ اس گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا ۔ وہاں مختلف آلات اور سامان برآمد کیا گیا ہے۔ اس نیٹ ورک میں عمران نامی ڈاکٹر شامل ہے جس کی گرفتاری کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں گردوں اور جگر کی پیوندکاری سمیت کئی اقسام کے ٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں البتہ اس کے لیے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی ہے۔
حکومت نے وزارتِ صحت کے ماتحت ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی (ہوٹا) کے نام سے ادارہ قائم کیا ہے جو اس بارے میں باقاعدہ اجازت دیتا ہے۔
SEE ALSO: 'گُردوں کی غیرقانونی پیوند کاری کشمیر میں ہوتی ہے'ہوٹا میں صرف خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد سے عطیہ لینے کی اجازت ہے تاہم میچ نہ ہونے کی صورت میں الگ طریقہ موجود ہے البتہ اس میں بھی کسی دباؤ یا لالچ کے بغیر عطیہ دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔
کوئی بھی ٹرانسپلانٹ کا خواہش مند اسپتال میں چیک اپ کے بعد اپنی رپورٹس اور ڈونر کی تفصیلات اس ادارے میں جمع کراتا ہے، جہاں مکمل غور کے بعد ڈونر اور عطیہ لینے والے کو بلایا جاتا ہے۔ اس بارے میں اسٹامپ پیپر پر حلف نامے جمع ہوتا ہے اور اس کے بعد دونوں افراد سے قرآن پاک پر حلف لیا جاتا ہے۔
ایک سال قبل اپنی بیٹی سے جگر کا عطیہ لینے والے اظہر حفیظ کہتے ہیں کہ پہلی مرتبہ میں نے قرآن پاک پر حلف دیا کہ یہ میری بیٹی ہے اور میری بیٹی نے حلف دیا کہ وہ میری بیٹی ہے اور بغیر کسی دباؤ کے مجھے عطیہ دے رہی ہے۔
اس ادارے کی اجازت کے بغیر ملک میں ہونے والا کوئی بھی ٹرانسپلانٹ غیر قانونی تصور ہوتا ہے۔
پاکستان میں ماضی میں ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں جن میں انسانی اعضا کی تجارت کی جاتی ہو اور رقم کے عوض نامناسب حالات میں لوگوں کے گردے حاصل کیے جاتے ہیں۔
SEE ALSO: پاکستان گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری کیلئے جاپانیوں کی نئی منزلاکتوبر 2016 میں پولیس نے راولپنڈی کے بحریہ ٹاؤن میں ایک عمارت پر چھاپا مارا تھا جہاں 24 افراد قید تھے۔ان افراد کو پنجاب کے مختلف علاقوں سے لایا گیا تھا اور انہیں لاکھوں روپے کا لالچ دیا گیا تھا۔ ان افراد کے ٹیسٹ کرنے کے بعد میچ ملنے کے بعد ان کا آپریشن کیا جاتا تھا اور ایک گردہ نکالنے کے بعد انہیں کچھ پیسے دے کر واپس بھیج دیا جاتا تھا۔
ایف آئی اے کے مطابق پنجاب میں اب بھی ایسے کئی نیٹ ورک کام کر رہے ہیں جو غیرقانونی طور پر انسانی اعضا کی خرید و فروخت میں ملوث ہیں۔
سال 2019 میں جاپان کی نیوز ایجنسی نے دعویٰ کیا تھا کہ جاپان سے بڑی تعداد میں افراد گردے کی پیوند کاری کے لیے پاکستان کا سفر کرتے ہیں۔