روس کے صدر ولادیمیر پوٹن جمعرات کو قازقستان پہنچ گئے ہیں تو دوسری جانب ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان، ان کے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی کی ازبکستان آمد متوقع تھی۔
ان عالمی رہنماؤں کی خطے میں موجودگی وسطی ایشیا میں سفارتی مفادات ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق وسطی ایشیا کی سابقہ سوویت جمہوریتیں ماسکو کے اثر و رسوخ میں کمی کے سبب اپنے سفارتی تعلقات کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد اس خطے پر ماسکو کے اثر و رسوخ میں کمی آئی ہے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے ہم منصب قازقستان کے قاسم جمرات توکائف نے ملاقات سے قبل دیے گئے انٹرویوز میں دونوں ممالک میں تعلقات کی تعریف کی۔
پوٹن نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہماری اسٹریٹیجک پارٹنرشپ حقیقت میں آگے بڑھ رہی ہے۔
دوسری جانب قاسم جمرات توکائف نے انٹرویو میں دونوں ممالک میں ماضی کے وسیع تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے روشن مستقبل کی امید ظاہر کی۔
سوویت یونین کے خاتمے کے تین دہائیوں کے بعد وسطی ایشیا میں دنیا کی دیگر طاقتیں بھی سرمایہ کاری میں مصروف ہیں اور یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب روس یوکرین کی جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔
چین یہاں سب سے اہم شراکت دار بن کر سامنے آ رہا ہے جو خطے میں روڈ اینڈ بیلٹ انیشی ایٹو کے تحت بڑے منصوبے بنا رہا ہے۔
پوٹن قازقستان کا دورہ ایسے موقع پر کر رہے ہیں جب ایک ہفتہ قبل فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں یہاں کا دورہ کر چکے ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ اور یورپی ملکوں کا روس کے جوہری ایندھن پر انحصار کیسے کم ہوگا؟دوسری جانب یورپی یونین، امریکہ، ایران اور ترکیہ بھی یہاں کے ممالک سے تعلقات بہتر کرنے میں مصروف ہیں۔
قازقستان سے ایک ہزار کلو میٹر کی دوری پر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (ای سی او) کا اجلاس ہو رہا ہے۔
اس اجلاس میں ایران اور ترکیہ کے صدور کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ اور وسطی ایشیا کے دیگر رہنما بھی شرکت کر رہے ہیں۔
ازبکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اس اجلاس کے ایجنڈے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جاری لڑائی شامل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر غیر متوقع حملہ کیا تھا جس میں 1400 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل کی حکومت کا کہنا ہے کہ ہلاک افراد میں زیادہ تعداد عام شہریوں کی تھی۔ حماس نے حملے میں 230 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جو اب بھی اس کی تحویل میں ہیں۔
حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے اعلانِ جنگ کیا اور جنگ کے دو مقاصد حماس کا مکمل خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی بتائے۔ ایک ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیلی فورسز نے غزہ کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے اور مسلسل بمباری کی جا رہی ہے۔ شمالی غزہ کو گھیرے میں لے کر زمینی کارروائی کی جا رہی ہے۔ حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ایک ماہ سے زائد سے جاری اسرائیلی حملوں میں ساڑھے 10 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں گیس کی کمی: کیا روس سے درآمد شدہ ایل پی جی یہ مسئلہ حل کر پائے گی؟واضح رہے کہ امریکہ اور اس کے بیشتر اتحادی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ’ارنا‘ کے مطابق ایران اس تنازے کو ای سی او میں زیرِ بحث لانے کا خواہاں ہے۔ واضح رہے کہ حماس کو ایران کی حمایت حاصل ہے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے بدھ کو تاجکستان کے صدر امام علی رحمان سے ملاقات میں اس تنازعے پر گفتگو کی۔
یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل اور اس کے حامی مغربی ممالک کے شدید ناقد ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان بھی اس تنازعے کو زیرِ بحث لا سکتے ہیں۔
اکنامک کوآپریشن آرگنائزیشن (ای سی او) کے اجلاس میں زیادہ تر معاشی امور، مواصلات کے ذرائع اور فلاحی امور کے لیے تعاون پر گفتگو ہونے کا امکان ہے۔
وسطی ایشیا کے ممالک کی سرحدوں کے ساتھ سمندر نہیں ہے وہ بحری راستوں تک رسائی کے لیے کوشاں ہیں جن میں پاکستان کی بندرگاہوں کا استعمال بھی شامل ہے۔
SEE ALSO: بھارت،مشرق وسطی، یورپ اقتصادی راہداری کے لئے اسرائیل حماس تنازعہ کتنا بڑا چیلنج ہے؟روس یوکرین کے جنگ کے سبب دباؤ کا شکار ہے۔ لیکن اب بھی خطے میں اہم ترین شراکت دار ہے۔
روس نے اب ایندھن کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ کیوں کہ یوکرین میں جنگ کے سبب عائد پابندیوں کے سبب روس زیادہ تر یورپی مارکیٹ سے باہر ہو رہا ہے۔
ماسکو نے بڑے پیمانے پر توانائی کے منصوبے شروع کیے ہیں جن میں قازقستان کے راستے ازبکستان کو گیس کی فراہمی بھی شامل ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کئی ممالک میں جوہری بجلی گھروں کے قیام اور پن بجلی کے منصوبے شامل ہیں۔
اس تحریر میں معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔