کراچی کے پوش علاقے گلشن اقبال میں رہائش پذیر خالدہ بیگم کو اب اس کا کوئی اعتبار نہیں کہ کب ان کے باورچی خانے کے چولہے میں گیس آنا بند ہو جائے اور آٹھ افراد پر مشتمل کنبے کے لیے کھانا بنانا ناممکن ہو جائے۔
اسی لیے انہوں نے اب کئی ماہ سے پائپ لائن گیس پر انحصار چھوڑ دیا ہے۔ چند ماہ قبل ہی انہوں نے 12 کلو کا سیلنڈر خریدا ہے جس میں اس وقت تین ہزار روپوں تک کی گیس ڈالی جا سکتی ہے۔
خالدہ بیگم نے بتایا کہ ایسے دو اور بعض اوقات تین سیلنڈرز ان کے گھر کے لیے مہینے بھر کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
صرف خالدہ بیگم ہی نہیں بلکہ کئی بڑے شہروں اور بہت سے دیہات میں جہاں گیس پائپ لائن کے ذریعے گھروں میں فراہم کی جاتی ہے وہ بھی گیس کی کم سپلائی کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ سردیوں میں اکثر گیس کی لوڈشیڈنگ کافی بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان میں تقریبا 23 فی صد گھرانوں کو قدرتی گیس پائپ کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے باقی 77 فی صد گھرانے لکڑی یا پھر ایل پی جی کا استعمال کرتے ہیں۔ ایل پی جی تیل کو ریفائن کرنے میں بائی پروڈکٹ کے طور پر حاصل ہوتی ہے۔
پاکستان صرف چند دہائیوں قبل تک گیس میں خود کفیل تھا۔ لیکن سیاسی بنیادوں پر گیس سپلائی اسکیمز کی بھرمار نے جہاں گیس کی سپلائی پر اثر ڈالا وہیں صنعتوں اور گھریلو صارفین کو گیس کی کمی کا سامنا ہوا۔
اس سیکٹر میں ڈسٹری بیوشن نقصانات جس میں چوری اور سسٹم لاسز دونوں شامل ہوتے ہیں وہ 200 ملین ڈالر ماہانہ تک جا پہچنے ہیں جب کہ گردشی قرضہ 1500 ارب سے تجاوز کرچکا ہے۔
توانائی امور کے ماہر فرحان محمود کے مطابق اس وقت ملک کی ضرورت کی 70 فی صد ایل پی جی مقامی طور پر ہی تیار کی جاتی ہے۔
لیکن چونکہ پاکستان میں حالیہ عرصے میں تیل اور گیس کی پیداوار کم ہو رہی ہے تو اسی حساب سے اس کی مقامی پیداوار میں بھی کمی ہو رہی ہے۔
اُن کے بقول جن ممالک سے ایل پی جی کی درآمد پر انحصار بڑھ رہا ہے، ان میں بیلجیم، عراق، اومان، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں ازبکستان اور ترکمانستان سے بھی ایل پی جی درآمد کر رہا ہے اور جون میں اس سلسلے میں ایل پی جی سے لدے 21 ٹینکرز طورخم کے راستے پہلی بار پاکستان پہنچے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ایل پی جی ٹرانسپورٹیشن نسبتاً آسان ہے۔ اور اس وقت ملک میں اس کا کمرشل استعمال زیادہ ہے۔ لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ گھریلو صارفین کو بھی مقامی طور پر موجود قدرتی گیس کے بجائے ایل پی جی استعمال پر قائل کیا جائے۔
روس سے مائع گیس کی پہلی کھیپ کی پاکستان آمد، کیا یہ گیس سستی ہو گی؟
پاکستان میں روسی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو روس سے بھی مائع پیٹرولیم گیس یعنی ایل پی جی کی درآمد شروع ہو گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک لاکھ میٹرک ٹن کی پہلی کھیپ رواں ہفتے ایران کے راستے پاکستان پہنچی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ توانائی کے شعبے میں تجرباتی بنیادوں پر تیل درآمد کرنے کے بعد پاکستان کی روس سے یہ دوسری بڑی خریداری ہے۔
ادھر روسی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ مائع گیس کی دوسری کھیپ کی درآمد کے لیے بھی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔
رواں برس جنوری میں ایک روسی وفد معاہدے کو حتمی شکل دینے کے سلسلے میں بات چیت کے لیے اسلام آباد پہنچا تھا۔
تین روزہ اجلاس کے دوران دونوں ممالک نے رواں برس مارچ کے آخر تک ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تمام تیکنیکی معاملے طے کیے تھے۔ ان میں انشورنس، ٹرانسپورٹیشن اور پیسوں کی ادائیگی کے طریقہ کار کو حل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اس حوالے سے زیادہ تفصیلات سامنے نہیں لائی گئی تھیں۔
'یہ معیشت کے لیے اچھی خبر ہے'
ماہر امور توانائی سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ روس سے ایل پی جی کی خریداری پاکستانی معیشت کے لیے اچھی خبر ہے۔
اُن کے بقول پاکستان میں گھریلو استعمال کے لیے گیس کا بہت زیادہ شارٹ فال ہے اور آئندہ موسم تبدیل ہونے کے بعد اس کی ضرورت زیادہ ہو گی۔
تاہم فرحان محمود کا کہنا ہے کہ یہ کہنا کافی مشکل ہے کہ روس سے ملنے والی مائع گیس پاکستان کو کسی رعایتی قیمت پر ملی ہو گی۔
امکان ہے کہ روس کو گیس کی ادائیگی چینی یوآن ہی میں کی جائے گی۔
انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز کے تیمور خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں سراک کے مقام پر ایک اکنامک زون ہے جہاں روس نے اپنا پیٹرولیم مصنوعات کا سٹاک رکھا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان اور روس کے درمیان معاہدہ ہونے کے بعد پاکستان کو فوری طور پر ایک لاکھ میٹرک ٹن ایل پی جی فراہم کی گئی ہے جو سڑک کے راستے پاکستان پہنچی ہے۔
ملک کو کس قدر گیس کی کمی کا سامنا ہے؟
پاکستان کو اپنی گیس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے دو ارب مکعب فٹ روزانہ کی کمی کا سامنا ہے۔
اس مقصد کے لیے پاکستان کو ایل این جی اور ایل پی جی دونوں ہی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں گیس کے کم ہوتے ہوئے ذخائر کے باعث مقامی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایل پی جی کی درآمد کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔
فورم