|
ویب ڈیسک ۔روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے کریملن میں شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کی، جس کی ویڈیو کریملن کی پریس سروس نے جمعرات کو جاری کی ہے۔
صدر پوٹن نے شام کے اپنے ہم منصب کو بتایا کہ انہیں مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش ہے۔ تاہم دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
روس نے ستمبر 2015 سے شام میں ایران کے ساتھ مل کر اسد حکومت کے مخالف گروپس کے خلاف فوجی مہم شروع کر رکھی ہے جس سے صدر اسد کو ملک کے بیشتر حصوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی ہے۔
اگرچہ اب روس کی توجہ یوکرین کے خلاف جنگ پر مرکوز ہے اور اس نے اپنے فوجی وسائل کے زیادہ تر حصے کا رخ اس جانب موڑ دیا ہے، لیکن اس کے باوجود کریملن نے شام میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھی ہوئی ہے اور وہاں اس کے فوجی اڈے بدستور موجود ہیں۔
پوٹن کا اسد سے کہنا تھا کہ مجھے اس بارے میں آپ کی رائے میں بہت دلچسپی ہے کہ مجموعی طور پر خطے کی صورت حال کس طرح آگے بڑھ رہی ہے۔بدقسمتی سے ہمیں یہ دکھائی دے رہا ہے کہ اس میں اضافے کا رجحان ہے جس کا اطلاق براہ راست شام پر بھی ہوتا ہے۔
کریملن نے بتایا ہے کہ پوٹن اور اسد کے درمیان ملاقات بدھ کے روز ہوئی تھی۔
اس سے قبل پوٹن اور اسد کے درمیان آخری ملاقات گزشتہ سال مارچ میں، شام کے خلاف بغاوت اور خانہ جنگی کے آغاز کی 12 ویں برسی کے موقع پر ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں پوٹن نے ملک کے استحکام میں روسی فوج کے کردار پر زور دیا تھا۔
صدر بشار الأسد نے روسی مترجم کے ذریعے صدر پوٹن سے کہا کہ بحیثیت مجموعی عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات اور یوریشیا خطے کی آج کی صورت حال میں ہماری آج کی ملاقات بہت اہمیت رکھتی ہے۔
SEE ALSO: شام میں داعش کےحراستی کیمپوں سے وطن واپس آنے والے ایک درجن امریکی کون ہیں؟اگرچہ کریملن نے دونوں صدور کے درمیان ہونے والی بات چیت کی تفصیلات نہیں بتائیں لیکن گفتگو کا ایک امکانی موضوع روس کے حوالے سے ترکیہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی سے متعلق تھا۔
روس اسد کی حکومت کاسب سے مضبوط حامی ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ترکیہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم ہیں اور وہ ترکیہ اور شام کے درمیان تعلقات دوبارہ قائم کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔
ترکیہ اور شام کے درمیان 2011 میں اس وقت تعلقات منقطع ہو گئے تھے جب شام میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہروں اور سیکیورٹی فورسز کی ظالمانہ پکڑ دھکڑ کے نتیجے میں خانہ جنگی نے جنم لیا جو اب تک جاری ہے۔
ترکیہ شام کے ان شورش پسندگروپوں کی سرپرستی کرتا ہے جو اسد حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں اور اس نے ابھی تک حکومت مخالف گروپ کے زیر قبضہ شمال مشرقی علاقے میں اپنی فورسز رکھی ہوئی ہیں جس پر دمشق برہم ہے۔
SEE ALSO: شام میں لڑںے والے شیعہ نوجوانوں پر مشتمل عسکری تنظیم 'زینبیون بریگیڈ' پر پابندی، معاملہ کیا ہے؟دسمبر 2022 میں ترکیہ، شام اور روس کے وزرائے خارجہ کے درمیان ماسکو میں اجلاس ہوا تھا جو 2011 کے بعد ترکیہ اور شام کے درمیان پہلا وزارتی سطح کا اجلاس تھا۔
روس نے پچھلے سال بھی شام اور ترکیہ کے درمیان میٹنگ کی ثالثی کی تھی۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان اور بشار الاسد نے حالیہ عرصے میں یہ اشارے دیے ہیں کہ وہ سفارتی تعلقات بحال کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
SEE ALSO: ترکیہ کے صدر کی ایک دہائی بعد شام سے ایک بار پھر تعلقات بحالی کی خواہش کا اظہارگزشتہ ہفتے ترکیہ کے ایک اخبار نے خبر دی تھی کہ صدر ایردوان اگست میں ماسکو میں صدر اسد سے ملاقات کریں گے، لیکن ترک حکام نے اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ خبر حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی۔
اس مہینے کے شروع میں ایردوان نے کہا تھا کہ انہوں نے اسد سے ترکیہ کا دورہ کرنے یا کسی تیسرے ملک میں ملاقات کرنے کا کہا ہے۔
15 جولائی کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے اسد نے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر لانے کے لیے ترکیہ کو شام کے شمالی حصے سے اپنی فورسز واپس بلانا ہوں گی اور باغی گروپوں کی سرپرستی بند کرنا ہو گی، جنہیں دمشق دہشت گردوں کا نام دیتا ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)