روسی حکام کے مطابق صدر پیوٹن نے یہ حکم نئی جنگی مشقوں سے قبل دیا ہے جن میں 65 ہزار سے زائد فوجی اہلکار شریک ہوں گے۔
واشنگٹن —
روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے ملک کے وسطی علاقے میں تعینات فوجی دستوں کو جنگ کے لیے مکمل تیار حالت میں رہنے کا حکم دیا ہے۔
روسی حکام کے مطابق صدر پیوٹن نے یہ حکم نئی جنگی مشقوں سے قبل دیا ہے جن میں 65 ہزار سے زائد فوجی اہلکار شریک ہوں گے۔
اس سے قبل 'نیٹو' نے خبر دار کیا تھا کہ روس نے ایک بار پھر یوکرین کی سرحد کے ساتھ فوجی دستوں کی تعیناتی شروع کردی ہے۔
صدر پیوٹن کی جانب سے نئی جنگی مشقوں کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنےآیا ہے جب یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشینکو نے ملک کے مشرقی علاقوں میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف جاری فوجی کارروائی ایک ہفتے کے لیے روکنے کا اعلان کیا ہے۔
صدر پوروشینکو نے جمعے کو یوکرین کے فوجی دستوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے لیے ملک کے مشرقی علاقے میں جاری اپنی کارروائی روک دیں جہاں روس نواز علیحدگی پسندوں نے کئی قصبوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
جمعے کو مشرقی یوکرین میں قائم 'انسدادِ دہشت گردی کےآپریشن سینٹر' کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے عرصے کے دوران اگر یوکرینی فوج پر حملہ ہوا تو اسے جوابی کارروائی کا حق حاصل ہوگا۔
اطلاعات ہیں کہ یوکرین کے صدر نے اس جنگ بندی کے اعلان سے ایک روز قبل روسی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے انہیں اس معاملے پر اعتماد میں لیا تھا۔
لیکن جنگی بندی کے اعلان کے بعد جمعے کی شب روسی حکومت کے مرکز 'کریملن' سے جاری ہونے والے ایک بیان میں جنگ بندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ مشرقی یوکرین میں سرگرم باغیوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیے بغیر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' کے ایک فوجی عہدیدار نے جمعے کو 'وائس آف امریکہ' کو بتایا تھا کہ یوکرین کی سرحد کے ساتھ جمع ہونے والے روسی فوجی دستے بظاہر سرحد کی حفاظت کرتے نظر نہیں آرہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی توجہ مخصوص سرحدی علاقوں پر مرکوز کر رکھی ہے اور وہ کوئی حکم ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
'نیٹو' افسر کے بیان کے بعد 'وہائٹ ہاؤس' کے ترجمان نے بھی یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کے اجتماع پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
امریکہ اور 'نیٹو' کی تشویش کے بعد روسی حکومت کے ایک ترجمان نے واضح کیا تھا کہ روسی فوجی دستوں کی یوکرین کی سرحد کے ساتھ تعیناتی پہلے سے چلی آرہی فوجی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد روسی سرحدوں کی نگرانی موثر بنانا ہے۔
روسی حکام کے مطابق صدر پیوٹن نے یہ حکم نئی جنگی مشقوں سے قبل دیا ہے جن میں 65 ہزار سے زائد فوجی اہلکار شریک ہوں گے۔
اس سے قبل 'نیٹو' نے خبر دار کیا تھا کہ روس نے ایک بار پھر یوکرین کی سرحد کے ساتھ فوجی دستوں کی تعیناتی شروع کردی ہے۔
صدر پیوٹن کی جانب سے نئی جنگی مشقوں کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنےآیا ہے جب یوکرین کے صدر پیٹرو پوروشینکو نے ملک کے مشرقی علاقوں میں روس نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف جاری فوجی کارروائی ایک ہفتے کے لیے روکنے کا اعلان کیا ہے۔
صدر پوروشینکو نے جمعے کو یوکرین کے فوجی دستوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک ہفتے کے لیے ملک کے مشرقی علاقے میں جاری اپنی کارروائی روک دیں جہاں روس نواز علیحدگی پسندوں نے کئی قصبوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
جمعے کو مشرقی یوکرین میں قائم 'انسدادِ دہشت گردی کےآپریشن سینٹر' کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کے عرصے کے دوران اگر یوکرینی فوج پر حملہ ہوا تو اسے جوابی کارروائی کا حق حاصل ہوگا۔
اطلاعات ہیں کہ یوکرین کے صدر نے اس جنگ بندی کے اعلان سے ایک روز قبل روسی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے انہیں اس معاملے پر اعتماد میں لیا تھا۔
لیکن جنگی بندی کے اعلان کے بعد جمعے کی شب روسی حکومت کے مرکز 'کریملن' سے جاری ہونے والے ایک بیان میں جنگ بندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ مشرقی یوکرین میں سرگرم باغیوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیے بغیر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' کے ایک فوجی عہدیدار نے جمعے کو 'وائس آف امریکہ' کو بتایا تھا کہ یوکرین کی سرحد کے ساتھ جمع ہونے والے روسی فوجی دستے بظاہر سرحد کی حفاظت کرتے نظر نہیں آرہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی توجہ مخصوص سرحدی علاقوں پر مرکوز کر رکھی ہے اور وہ کوئی حکم ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
'نیٹو' افسر کے بیان کے بعد 'وہائٹ ہاؤس' کے ترجمان نے بھی یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کے اجتماع پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
امریکہ اور 'نیٹو' کی تشویش کے بعد روسی حکومت کے ایک ترجمان نے واضح کیا تھا کہ روسی فوجی دستوں کی یوکرین کی سرحد کے ساتھ تعیناتی پہلے سے چلی آرہی فوجی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد روسی سرحدوں کی نگرانی موثر بنانا ہے۔