روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پیر کو کہا کہ یوکرین کو بحیرہ اسود کے ذریعے محفوظ طریقے سے اناج برآمد کرنے کی اجازت دینے والا تاریخی معاہدہ اس وقت تک بحال نہیں ہو گا جب تک مغرب زرعی برآمدات پر ماسکو کے مطالبات کو پورا نہیں کرتا۔ یوکرین اور اس کے مغربی اتحادیوں نے کریملن کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے اور اسے ماسکو کی جانب سے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کی چال قرار دیا ہے ۔
پوٹن کےاس بیان نے ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوان کے ساتھ ان کی بات چیت اس معاہدے کو بحال کر سکتی ہے جسے عالمی سطح پر خوراک کی فراہمی کے لیے بہت اہم سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر افریقہ، مشرقِ وسطیٰ اور ایشیا میں اس کی ضرورت زیادہ ہے۔
روس نے جولائی میں یہ شکایت کرتے ہوئے اس معاہدے میں توسیع کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ خوراک اور کھاد کی روسی برآمدات میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا ۔ اس نے کہا کہ شپنگ اور انشورنس پر پابندیوں نے اس کی زرعی تجارت کو متاثر کیا حالانکہ اس نے پچھلے سال سے ریکارڈ مقدار میں گندم فراہم کی ہے۔
پوٹن نے پیر کو ہونے والی ملاقات کے دوران ان شکایات کے بارے میں دوبارہ بات کی اور صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ اگر ان وعدوں کا احترام کیا گیا تو روس ’’چند روز میں ‘‘ معاہدے میں دوبارہ شامل ہو سکتا ہے ۔
ایردوان نے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ جلد ہی کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ اور اقوام متحدہ نے تجاویز کا ایک نیا پیکج پیش کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی ترکیہ اور اقوام متحدہ نے اصل معاہدے کی ثالثی کی تھی ۔
ایردوان نے روسی تفریحی مقام سوچی میں پوٹن کے ساتھ منعقدہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ انہیں یقین ہے کہ وہ ایک ایسے حل تک پہنچ جائیں گے جو مختصر وقت میں توقعات کو پورا کر سکے گا۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے اس سے قبل تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پوٹن کا اناج کے معاہدے کے حوالے سے یہ انداز اپنانا محض اپنے فائدے کو ملحوظ رکھنے کے لئے ہے۔
عالمی سطح پر خوراک کی فراہمی کے لیے بات چیت کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے اور تجزیہ کاروں نے پیش گوئی کی تھی کہ پوٹن اس سلسلے میں سخت مؤقف اپنائیں گے۔
چیتھم ہاؤس تھنک ٹینک کے ساتھ منسلک فوڈ سیکیورٹی کے ماہر ٹم بینٹن کہتے ہیں کہ پوٹن کو معلوم ہے کہ وہ خوراک کو معاشی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس طرح اپنی مرضی کے مطابق رعایتوں کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ وہ ان میں روس کے اناج، یا کھاد کی برآمدات، یا وسیع تر امور بھی شامل کر لیں ۔
استنبول میں قائم جوائنٹ کوآرڈینیشن سینٹر کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یوکرین سے ترقی پذیر ممالک کو 57فیصد اناج بھیجا جاتا ہےجس میں سب سے پہلے چین ہے جو اس میں سے تقریباً ایک چوتھائی حصہ حاصل کرتا ہے۔
روسی صدر نے یہ بھی کہا کہ روس چھ افریقی ممالک کو مفت اناج فراہم کرنے کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب ہے۔ روسی رہنما نے مزید کہا کہ روس 1 ملین میٹرک ٹن (1.1 ملین ٹن) سستا اناج ترکیہ کو پروسیسنگ کے لیے بھیجے گاتاکہ وہ اسے غریب ممالک تک پہنچا دے۔
روس اور ترکیہ کے لیڈروں کی ملاقات کریملن کی حملہ آور افواج کے خلاف یوکرین کی حالیہ جوابی کارروائی کے پس منظر میں ہوئی ہے ۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے تازہ ترین پیشرفت میں اتوار کو کہا کہ وزیر دفاع اولیکسی ریزنکوف کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ زیلنسکی نے وضاحت دیے بغیر کہا کہ فرائض کی بجا آوری کرتے ہوئے ’’نئے طریقوں ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریزنکوف نے اپنے استعفے کے خط کی تصویر پیر کے روز شائع کر دی ہے۔
SEE ALSO: یوکرین میں جنگ کے دوران وزیرِ دفاع کی تبدیلی، رستم عمروف کی نامزدگیروس نے اناج کے معاہدے سے دستبردار ہونے کے علاوہ اوڈیسا کے علاقے پر بارہا حملہ کیا ہےجہاں بحیرہ اسود میں یوکرین کی اہم بندرگاہ ہے۔ یوکرین کی فضائیہ نے پیر کے روزکہا کہ انہوں نے 32 میں سے 23 ڈرونز کو روکا جنہوں نے اوڈیسا اور ڈنیاپرپیٹروسک علاقوں کو نشانہ بنایا لیکن ڈرونز سے ہونے والے نقصان کی وضاحت نہیں کی۔
پوٹن اور ایردوان دونوں رہنما دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اقتدار میں رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا آپس میں قریبی تعلق ہے جو 2016 میں ایردوان کے خلاف ناکام بغاوت کے نتیجے میں پروان چڑھا تھا کیونکہ اس وقت پوٹن ان کی حمایت کرنے والے پہلے بڑے رہنما تھے۔
ترک صدر نے یوکرین میں 18 ماہ کی جنگ کے دوران پوٹن کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ ترکیہ اس حملے کے بعد روس کے خلاف مغربی پابندیوں میں شامل نہیں ہوا ہے۔
وہ روس کی بیرونِ ملک تجارت کے لیے ایک اہم تجارتی پارٹنر اور لاجسٹک مرکز کی حیثیت کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ تاہم نیٹو کے رکن ملک کی حیثیت سے ترکیہ نے یوکرین کی بھی حمایت کی ہے، ہتھیار بھیجے ہیں، یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی سے ملاقات کی ہے اور کیف کی نیٹو میں شمولیت کی حمایت کی ہے۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں )