پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف چیف جسٹس کی جانب سے فیصلہ لکھے جانے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے میں بھی کوئی نادیدہ ہاتھ نظر آرہا ہے۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوشدل خان کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز میں تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ لہذٰا ہم جسٹس فائز عیسیٰ کا ہر مرحلے پر دفاع کریں گے۔
سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے کوئی خلافِ قانون کام نہیں کیا۔ ان کے بارے میں ایسا فیصلہ درست نہیں ہے۔ دوسری جانب بعض وکلا کا کہنا ہے کہ پاکستان بار کونسل کسی جج کے فیصلے پر اعتراض نہیں کر سکتی۔
پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ عدلیہ کے بہترین مفاد میں اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے ترقیاتی فنڈز سے متعلق ایک کیس کے فیصلے میں جسٹس فائز عیسیٰ کو وزیرِاعظم کے خلاف آئندہ کسی کیس میں شامل ہونے سے روک دیا تھا۔ چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا تھا کہ جسٹس فائز عیسیٰ وزیرِاعظم کے خلاف ایک کیس میں درخواست گزار ہیں اور ان کا وزیرِاعظم کے خلاف کیس سننا درست نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان بار کونسل کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ اس معاملے میں پاکستان بار کونسل نے اپنا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے جس میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف چیف جسٹس کے ریمارکس اور انہیں رواں ہفتے کسی بھی بینچ میں شامل نہ کیے جانے کے فیصلے پر غور کیا جائے گا۔
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوشدل خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں فائز عیسیٰ نے 50 کروڑ کے ترقیاتی فنڈز کے معاملے پر نوٹس لیا تھا۔ اس معاملے میں وزیرِاعظم ملوث تھے تو ان کا نام ہی سامنے آنا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جسٹس فائز اس میں شکایت کنندہ بن گئے۔ اس معاملے میں باہر کے ہاتھ ہیں اور ہم جسٹس فائز عیسیٰ کا تحفظ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے پر ہم سب وکلا کو تحفظات ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ کے درمیان تقسیم نہ ہو لیکن اس تفریق کے سلسلے کو ختم کرنا ہو گا۔
بار کونسل کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ایسا عمل پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا، ماضی میں ان کے خلاف فیض آباد دھرنے کے بعد سے لے کر جوڈیشل کونسل میں کیس جانے تک سب ان کے خلاف ایک سازش کی کڑیاں ہیں۔
اس معاملے پر سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کوئی بھی جج اپنے برابر کے جج کو کام سے نہیں روک سکتا۔ یہ سپریم کورٹ کی روایت ہے۔ اگر کوئی جج خود کو کسی بینچ سے الگ کرے تو الگ بات ہے۔
اس معاملے پر بعض وکلا پاکستان بار کونسل کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز سے متفق نہیں اور پاکستان بار کونسل کے اس معاملے میں شامل ہونے پر اعتراض کر رہے ہیں۔
ایڈوکیٹ اظہرصدیق کا کہنا ہے کہ پاکستان بار کونسل کی بھی حدود ہیں۔ ایک عدالت کے جج کے فیصلے پر پاکستان بار کونسل کس طرح اعتراض کرسکتی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج نے ایک فیصلہ دیا ہے اور اس پر ایسے اعتراض کرنا درست اقدام نہیں ہے اور پاکستان بار کونسل کو خود کو کسی بھی متنازع عمل سے دور رکھنا چاہیے۔
دوسری جانب جسٹس فائز عیسیٰ کو آئندہ ہفتے کی کاز لسٹ میں شامل کرلیا گیا ہے اور وہ آئندہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے ساتھ بینچ نمبر چار میں کیسز کی سماعت کریں گے۔
رواں ہفتے ان کا نام کسی بینچ میں شامل نہیں تھا اور اس بارے میں بتایا جارہا ہے کہ جسٹس منصور کی علالت کی وجہ سے بینچ تشکیل نہ پاسکا تاہم آئندہ ہفتے سے جسٹس فائز عیسیٰ کیسز کی سماعت کریں گے۔ اس فیصلے پر جسٹس فائز عیسیٰ نے رجسٹرار کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے اس فیصلے کو خود تک پہنچائے جانے کے بجائے میڈیا میں ریلیز کرنے اور فیصلہ تحریر کرنے سے قبل انہیں نہ دکھانے پر اعتراض کرتے ہوئے رجسٹرار سے وضاحت مانگی تھی۔