جب ملکہ الزبتھ دوم نے 1952 میں تخت سنبھالا تو تاجِ برطانیہ سے ایک 'ہیرا' ہندوستان کی تقسیم کی صورت میں پانچ برس قبل ہی الگ ہوا تھا۔ وہ ایسے وقت میں ملکہ بنیں جب برِصغیر تقسیمِ ہند کے بعد ہونے والی خون ریزی کے اثرات سے باہر نہیں نکل پایا تھا۔
ملکہ برطانیہ تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان کے دوروں پر آئیں اور برِ صغیر پر برطانوی راج کے دوران تلخ یادوں کے باوجود ملکہ کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا ۔
ملکہ کے جنوبی ایشیا کے دوروں کے عینی شاہدین کا کہناہے کہ ملکہ نے گرمجوشی اور لوگوں میں گھل مل جانے کے باعث برِ صغیر کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود وہ آخری وقت تک غیر متنازع رہیں۔
ٹفٹس یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر عائشہ جلال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ''قابلِ ذکر'' ہے کہ ملکہ ''جنوبی ایشیا میں نوآبادیاتی نظام کی مخالف قوم پرستی کی گہری تاریخ کے باوجود متنازع شخصیت نہیں تھیں۔''
وہ اس بات کا سہرا ''اچھی پی آر (عوامی تعلقات)'' کو قرار دیتی ہیں۔
ممتاز مصورہ اور ماہرِ تعلیم سلیمہ ہاشمی یاد کرتی ہیں کہ کس طرح ایک اسکول کی لڑکی کے طور پر لاہور میں ملکہ کے قافلے کو دیکھ کر وہ ہاتھ ہلا رہی تھیں، یہ اس وقت کی بات ہے جب 1961 میں ملکہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
سلیمہ ہاشمی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ برسوں بعد لاہور میں نیشنل کالج آف آرٹس کی پرنسپل کے طور پر 1997 میں انہوں نے ملکہ کے دوسرے اور آخری دورۂ پاکستان کے موقعے پر میزبانی کی۔
انہوں نے کہا کہ وہ ملکہ کی اس صلاحیت سے متاثر ہوئیں کہ وہ بہت آسانی سے لوگوں میں گھل مل جایا کرتی تھیں اور دوسروں کو اپنی موجودگی سے اچھا احساس دلاتی تھیں۔
سلیمہ ہاشمی نے بتایا کہ کسی ایسی شخصیت کے طور پر جسے سلطنت کا تصور وراثت میں ملا، ملکہ برطانیہ نے دولتِ مشترکہ (کامن ویلتھ) کو قابل عمل بنانے کی بہت کوشش کی۔
عائشہ جلال کہتی ہیں کہ امریکہ کے پاور بروکر کے طور پر ابھرنے کے باوجود شاہی خاندان جنوبی ایشیا کے بارے میں متوازن نظریہ رکھنے میں کامیاب رہا۔ اگرچہ جنوبی ایشیا میں اُن کا اثرورسوخ تقسیمِ ہند کے بعد کم ہوا، لیکن انہوں نے جنوبی ایشیائی ملکوں کے ساتھ اچھے روابط رکھے۔
ملکہ نے اپنے 70 سالہ دورِ حکمرانی میں تین مرتبہ بھارت اور دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا۔
عائشہ جلال کہتی ہیں کہ ملکہ ایک آئیکون تھیں جنہیں دنیا میں کچھ اچھا کرنے یا اچھا کرنے کی کوشش کرنے کے قابل سمجھا جاتا تھا۔
ملکہ کے انتقال پر سلیمہ ہاشمی کہتی ہیں کہ ملکہ جنوبی ایشیا کے لیے برطانوی بادشاہت کا مدہم ہوتا نقش تھیں اور لوگ یہ جاننے کے لیے تجسس میں ہوں گے کہ بادشاہ چارلز اپنے کردار کو آگے کیسا دیکھتے ہیں اور وہ شاہی روایات کو کس طرح آگے بڑھائیں گے۔