اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق کیس میں حکومت کو پیش رفت کے لیے دو ماہ کا وقت دے دیا ہے اور 14 نومبر تک رپورٹ طلب کر لی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر آئین کی منشا کے مطابق عمل نہیں ہوتا تو سب کو گھر جانا چاہیے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے جمعے کو کیس کی سماعت کی تو اس موقع پر وزیرِ اعظم شہباز شریف بھی کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔
عدالت نے رواں برس جولائی میں ہونے والی سماعت کے دوران حکم دیا تھا کہ لاپتا افراد 9 ستمبر تک بازیاب نہ ہوئے تو وزیرِ اعظم خود پیش ہوں۔
جمعے کو سماعت کے موقع پر عدالت نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے معاملے پر ریاست کا وہ رسپانس نہیں آ رہا جو ریاست کی ذمے داری ہے؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیرِ اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے لاپتا افراد کی بازیابی کا معاملہ وفاقی کابینہ کو بھی بھیجا تھا۔ آپ نے کمیٹی تشکیل دی لیکن یہ معاملہ صرف کمیٹی بنانے کا نہیں ہے۔ اس عدالت نے مناسب سمجھا کہ آپ کو بلا کر بتائیں معاملہ کیا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریاست کے اندر ریاست کا کوئی تصور نہیں ہے۔ آئین کے مطابق ملک کا چیف ایگزیکٹو ہی اس کا ذمے دار کے ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق کا خیال رکھے۔ آئین کی بات کریں تو یہ عدالت اس کے تحت لاپتا افراد کی بازیابی کے کیس کا فیصلہ دے دے گی۔
اس موقع پر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل پاکستان میں موجود ہیں اور میری ان سے ملاقات طے تھی لیکن عدالت میں پیش ہونا میری ذمے داری تھی۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ " جب عدالت پہنچا تو ایک بچے نے مجھے کہا کہ وزیرِ اعظم میرے ابو کو مجھے ملا دو۔ یہ سب بہت ڈسٹرب کرنے والا تھا۔ اللہ جانے کس نے بچے کا والد غائب کیا لیکن ڈھونڈنا میری ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ لاپتا افراد کو ڈھونڈنے کی ہر کوشش کروں گا اور کسی بہانے کے پیچھے نہیں چھپوں گا۔ مجھے کامیابی ہوتی ہے یا نہیں اللہ جانے مگر کوشش پوری کروں گا۔
'یہ تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے لوگوں کو اٹھاتے ہیں'
چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کمیشن کی جیسی کارروائی سامنے آئی وہ تکلیف دہ ہے۔ بلوچ طلبہ کے تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔ سیاسی قیادت نے مل بیٹھ کر یہ معاملات حل کرنا تھے۔ ایسا تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے لوگوں کو اٹھاتے ہیں۔ یہ تاثر قومی سلامتی کو متاثر کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم سے استفسار کیا کہ آپ یا تو یہ کہہ دیں کہ ملک میں آئین صحیح معنوں میں نافذ ہی نہیں ہو سکا تو پھر ہم کسی اور سے پوچھیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت لاپتا افراد کی بازیابی کے معاملے پر اب فیصلہ دینا چاہتی ہے، ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ لوگوں کا لاپتا ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت ملک میں سول بالادستی کو یقینی بنائے گی۔ وزیرِ داخلہ یہاں موجود ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے ماتحت ہیں۔
'وعدہ تو نہیں کرتا لیکن آخری حد تک لاپتا افراد کی بازیابی کی کوشش کروں گا'
چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم سے استفسار کیا کہ یہاں ایک چھوٹا بچہ آیا ہے عدالت اس کو کیا جواب دے؟ اس بچے کو ہم نے سابق وزیرِاعظم کے پاس بھی بھیجا تھا۔ آپ بطور چیف ایگزیکٹو بتائیں ہم آئندہ اس کو کیا جواب دیں؟
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ لاپتا افراد کے معاملے پر قائم کمیٹی کی چھ میٹنگ ہو چکی ہیں اور میں اس کمیٹی کی کارکردگی کا جائزہ ہر دو ہفتے بعد لوں گا اور ہر مہینے کی کارکردگی بھی اس عدالت کو بھیجوں گا۔
وزیرِ اعظم نے عدالت کو یقین دلایا کہ یہ رپورٹس محض فرضی باتیں نہیں ہوں گی، عدالت جب کہے گی خود پیش ہو کر وضاحت دوں گا۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ "میں خود پچھلے دور میں جیل گیا تھا اور میں لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کا دکھ سمجھ سکتا ہوں۔ لاپتا افراد کی بازیابی کا وعدہ تو نہیں کرتا لیکن آخری حد تک کوشش کروں گا۔"
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزیرِ اعظم کو کہا کہ آئین نافذ کرنا آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ آئین کی منشا پر عمل نہیں ہوتا تو سب کو پیک کر کے گھر جانا چاہیے۔ کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف آپ کارروائی کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم کو کہا کہ "آپ معاملہ پارلیمنٹ لے جائیں اس پر قانون سازی کر لیں، بھارت میں یہ سب ہو چکا باقی ممالک بھی کر چکے۔ ہم لاپتا افراد کا معاملہ آپ پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ریاست کے پاس ایجنسیز ہیں، جائیں اور لاپتا افراد کو تلاش کریں۔ اس عدالت میں پھر کوئی شکایت لے کر نہ آئے۔"
عدالت نے حکومت کو لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق پیش رفت رپورٹ 14 نومبر کو طلب کر لی ہے۔