رسائی کے لنکس

چین اور بھارت نے کچھ متنازع سرحدی علاقوں سے فوجیں واپس بلا لیں


لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریب بھارت کی ایک فوجی چوکی میں فوجی مستعد کھڑے ہیں۔(فائل فوٹو)
لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے قریب بھارت کی ایک فوجی چوکی میں فوجی مستعد کھڑے ہیں۔(فائل فوٹو)

ہمالیہ کے مغربی حصے کے سرحدی علاقے گوکرا میں چین اور بھارت کی افواج نے حالات معمول پر لانا شروع کر دیے ہیں۔ دونوں ممالک نے دو برس بعد اعلان کیا ہے کہ ان کے درمیان حالتِ جنگ ختم ہو گئی ہے۔دو سال قبل برف پوش اور یخ پہاڑی علاقے میں دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تصادم میں متعدد ہلاکتوں کے بعد سے ہمسایوں کے درمیان تعلقات کشیدہ چلے آ رہے تھے۔

دونوں ملکوں کی جانب سے فوجی کشیدگی اور تناؤ کی صورتِ حال کے خاتمے کا اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب اگلے چند روز میں ازبکستان میں ایک کانفرنس ہونے جا رہی ہے جس میں چین کے صدر شی جن پنگ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی شرکت متوقع ہے۔

دونوں ملکوں نے کہا ہےکہ سرحد پر فوجی کشیدگی میں خاتمے کا عمل باہمی تعاون اور منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے جس سے سرحد پر امن قائم رکھنے میں مدد ملے گی۔

بھارت کے ایک دفاعی ذریے نےاپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا کہ اگرچہ دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی اب بھی ہمالیہ کے سرحدی علاقے میں آمنے سامنے کھڑے ہیں لیکن اب ان کے درمیان تناؤ کی صورتِ حال نہیں ہے۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک کے درمیان انتظامی طور پر سرحد تسلیم کیے گئے حصے کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ اقدام سرحد پر امن و سکون لانے کی جانب پہلا قدم ہے۔

چین کی وزارتِ دفاع نے جمعے کے روز کہا کہ دونوں اطراف کے فوجیوں نے مربوط اور منظم طریقے سے حالتِ جنگ سے دست برداری شروع کر دی ہے۔ جس سے سرحدی علاقے میں امن و سکون کے لیے سازگار فضا پیدا ہو گی۔

بھارت اور چین کے درمیان 3800 کلو میٹر کی طویل سرحد ہے جس پر تعینات فوجی دستوں کے عہدے دار ایک دوسرے کے خلاف گولہ بارود کے استعمال سے بچنے کے لیے ضابطوں اور طریقہ کار کی پابندی کی کوشش کرتے ہیں۔

جون 2020 میں لداخ کے علاقے گالوان میں بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان خون ریز چھڑپ ہوئی تھی، جس کے بعد سے دونوں ممالک کے سینئر فوجی کمانڈروں کے درمیان ملاقاتوں کے 16 دور ہو چکے ہیں۔

اس جھڑپ میں بھارت کے کم ازکم 20 اور چین کے چارفوجی ہلاک ہو گئےتھے، جس کے نتیجے میں جوہری ہتھیاروں سے لیس ایشیا کی ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہو گیا تھا۔

بھارت نے لداخ کے سرحدی علاقے میں چین سے مقابلے کے لیے اپنے 50 ہزار فوجی بھیجے تھے، جہاں کچھ سرحدی چوکیوں کی اونچائی 15 ہزار فٹ سے زیادہ ہے۔اتنی بلندی پر آکسیجن کی کمی اور جما دینے والا درجہ حرارت ایک بڑا چیلنج ہے جو لڑے بغیر ہی ہلاکتوں کا سبب بن سکتا ہے۔

چین نے فوجیوں کی واپسی کے فروری 2021 کے معاہدے کے تحت لداخ میں واقع پینگونگ تسو جھیل کے کنارے قائم اپنی درجنوں چوکیاں ختم کر دی تھیں اور فوجی سازو سامان واپس بلا لیا تھا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے انتہائی قریب مورچہ بند تھیں اور کوئی معمولی واقعہ یا غلط فہمی ایک بڑے اور مہلک تصادم کا سبب بن سکتی تھی۔

نئی دہلی کے بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین کو یہ خدشہ تھا کہ اگر ملاقات کی کوئی صورت بنتی ہے تو کہیں نریندر مودی ملاقات سے انکار نہ کر دیں۔ اس لیے چین مذکورہ علاقے سے ہٹنے پر راضی ہوا ہے۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان نومبر 2019 میں برازیل میں منعقد ہونے والے برکس اجلاس کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد دونوں میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

دفاعی تجزیہ کار جنرل (ریٹائرڈ) پی کے سہگل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جہاں سے افواج کی واپسی شروع ہوئی ہے وہ بھی بھارت کا ہی علاقہ تھا اور اب بھارت اپنے ہی علاقے سے دو ایک کلومیٹر پیچھے ہٹ رہا ہے۔ اس طرح چین کا علاقہ بڑھتا اور بھارت کا گھٹتا جا رہا ہے۔

اس سے قبل آخری بار بارہویں دور کے مذاکرات کے بعد گزشتہ سال اگست میں متنازع علاقوں سے افواج کی واپسی ہوئی تھی۔ اس کے بعد کور کمانڈرز سطح کے تین دور کے مذاکرات ہوئے مگر وہ بے نتیجہ رہے۔

جنرل سہگل کا کہنا تھا کہ چین کی فوجیں اپریل 2020 میں دیپسانگ، گوگرا ہائٹس، گلوان، پینگانگ سو اور دیمچوک علاقے میں آئی تھیں۔ مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی افواج گلوان وادی سے پیچھے ہٹ گئیں۔ حالاں کہ وہ بھارت کا ہی علاقہ تھا، وہاں اس کی بالادستی تھی۔ اگر بھارتی افواج وہاں رہتیں تو چینی افواج دیگر پوائنٹس سے ہٹنے پر مجبور ہو جاتیں۔

ان کے مطابق دیپسانگ پلین اور دیمچوک بھارت اور چین دونوں کے لیے اسٹریٹجک نقطۂ نظر سے بہت اہم ہیں۔ وہاں چینی فوجیں موجود ہیں جو بھارت کی فضائی نقل و حمل پر نظر رکھ رہی ہیں۔ اگر چین وہاں رہتا ہے تو وہ بھارت کو کافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لیکن وہ وہاں سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ اس بارے میں بات بھی نہیں کرتا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق چین بہت سوچ سمجھ کر اقدامات کر رہا ہے۔ رواں سال کے مارچ میں چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے دورۂ بھارت کے موقع پر چین نے ہاٹ اسپرنگ علاقے کے پیٹرولنگ پوائنٹ 15 سے افواج کی واپسی کی تجویز رکھی تھی جسے بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔

لیکن اس کے بعد کئی دور کے مذاکرات کے بعد اسی پوائنٹ سے افواج کی واپسی کا عمل شروع ہوا ہے۔ لیکن باقی دیگر متنازع علاقوں سے واپسی کے بارے میں چین کوئی تجویز نہیں رکھتا۔

جنرل پی کے سہگل کے مطابق بھارت چاہتا ہے کہ جہاں جہاں بھی دونوں فوجیں بالکل آمنے سامنے ہیں وہاں سے ہٹ جائیں۔ اس کے بعد دیپسانگ اور دیمچوک سے بھی ہٹ جائیں اور وہاں چلی جائیں جہاں اپریل 2020 سے قبل تھیں۔ ان کے خیال میں جب تک یہ تینوں باتیں نہیں ہوں گی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ ہی دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں گے۔

مارچ میں دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ وانگ یی اور ایس جے شنکر کی ملاقات کے بعد رواں سال کے جولائی میں انڈونیشیا کے شہر بالی میں منعقد ہونے والے گروپ 20 کے وزارئے خارجہ کے اجلاس کے موقع پر ایک بار پھر دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس دوران بھارت بار بار یہ بیان دیتا آیا ہے کہ جب تک چین اپنی افواج کو سابقہ پوزیشن پر نہیں لے جاتا، باہمی تعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔

یاد رہے کہ فریقین ایک دوسرے پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کی خلاف ورزی اور اسے من مانے طور پر تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے اور ایک دوسرے کے الزام کی تردید کرتے آئے ہیں۔

جنرل سہگل نے اس امید کا اظہار کیا کہ شنگھائی تعاون کونسل (ایس سی او) اجلاس میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات کا امکان ہے۔ بقول ان کے ملاقات ضروری بھی ہے۔ کیوں کہ جب تک دونوں رہنما بات چیت نہیں کریں گے، نہ تو سرحدی تنازع ختم ہوگا اور نہ ہی رشتے بہتر ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں نومبر 2019 کے بعد سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔

ان کے مطابق اس معاملے میں بھارت کی حکمتِ عملی چین کے مقابلے میں کمزور ہے۔ حالاں کہ نریندر مودی ایک مضبوط وزیرِ اعظم ہیں اور بیشتر عالمی رائے عامہ ان کے ساتھ ہے لیکن پھر بھی وہ چین کو پرانی پوزیشن پر واپس جانے کے لیے مجبور نہیں کر پا رہے۔

بقول ان کے وزیرِ اعظم نے پارلیمنٹ میں یہ بیان دے کر بہت بڑی غلطی کی تھی کہ چین نے بھارت کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کیا ہے۔ اگر وہ بھارت کی زمین نہیں تھی تو پھر بھارت اس کو پیچھے ہٹنے کے لیے کیوں کہہ رہا ہے۔ ان کے مطابق چینی افواج دیپسانگ میں بھارت کے ایک ہزار مربع کلومیٹر پر قابض ہیں۔

وہ بعض دیگر مبصرین کی اس رائے سے متفق ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر اندرون ملک کے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے بھی بیانات دیتے ہیں۔

حزبِ اختلاف کے رہنماوں اور بالخصوص سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی حکومت پر چین کے تئیں نرم پڑنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ حکومت اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے اس الزام کی تردید کی جاتی رہی ہے۔

رپورٹس کے مطابق ایل اے سی پر دونوں ملکوں کی جانب سے 50، 50 ہزار فوجی تعینات اور بھاری فوجی آلات نصب ہیں۔ ذرائع کے مطابق چینی افواج نے گزشتہ دو برسوں میں ایل اے سی پر متعدد تعمیرات کی ہیں اور بعض مقامات پر ایک طرح سے ایل اے سی کی پرانی پوزیشن تبدیل ہو گئی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG