فرانس کے تیار کردہ رافیل طیارے کی بھارت حوالگی کے ساتھ ہی پاکستان اور بھارت کی فضائی قوت کے درمیان تقابل پر بحث شروع ہو گئی ہے۔
بھارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے کی کھیپ کا پہلا طیارہ حاصل ہونے کے بعد بھارتی فضائیہ کو پڑوسی ملک پر سبقت حاصل ہو جائے گی جب کہ پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فضائیہ کو ایف 16 طیاروں اور جے ایف 17 تھنڈر جیسے فورتھ جنریشن جہازوں کی وجہ سے اب بھی سبقت حاصل ہے۔
ریٹائرڈ ایئر مارشل شاہد لطیف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ہمیں معلوم ہے کہ بھارت کو پاکستان پر عددی برتری حاصل ہے۔ لیکن، معیار کے لحاظ سے پاکستان بہتر ہے۔
اُن کے بقول، پاکستان میں پائلٹس اور دیگر افراد کو جب تربیت دی جاتی ہے تو اُسی وقت بتا دیا جاتا ہے کہ انہیں خود سے بڑی تعداد کے حامل دشمن کا مقابلہ کرنا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے پاس موجود ایئر پاور کے حوالے سے شاہد لطیف نے کہا کہ بھارت کے جہاز کافی پُرانے ہیں۔ ان میں سے کئی کو حادثات کا شکار ہونے کی وجہ سے اڑنے والے تابوت کہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے جہاز خود بنانے کی کوشش کی۔ لیکن اس میں بھی ناکام رہا اور ان کی فضائیہ نے ہی اسے خریدنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان نے ریکارڈ وقت میں طیارہ سازی کا منصوبہ مکمل کیا۔
شاہد لطیف کے مطابق اس وقت پاکستان خود سے جو جے ایف 17 لڑاکا طیارے بنا رہا ہے ان کی تعداد ایک سو سے زائد ہوگئی ہے اور اب پاکستان اس جہاز کا تھرڈ بلاک بنا رہا ہے۔ پاکستان فضائیہ میں جو بھی جہاز اپنی مدت پوری کرتا ہے اس کو جے ایف 17 طیاروں سے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف نے کہا کہ اب جنگوں کے فیصلے ایئر پاور سے کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں کے درمیان زمینی فوجوں کو آگے نہیں آنا پڑا بلکہ فضائی قوت سے ہی فیصلے ہوئے۔
رافیل اور ایف سولہ کے تقابل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ایئر مارشل (ر) شاہد لطیف نے کہا ہے کہ رافیل، یورو فائٹر، ایف 16 اور جے ایف 17 فورتھ جنریشن کے جہاز ہیں اور ان میں فرق بہت معمولی ہے۔ پاکستان کے پاس موجود جے ایف 17 بعض چیزوں کے مقابلے میں ایف 16 سے بھی بہتر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایف 16 اور رافیل کا مقابلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا، کیونکہ پاکستان نے بھارت کا اسی کیٹیگری کا سخوئی 30 طیارہ تباہ کیا۔ ان تمام جہازوں کے لیے تربیت کا معیار بہت اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ مشین کا بہتر استعمال پائلٹ اور اس کی تربیت پر منحصر ہوتا ہے اور پاکستان اس میں سبقت رکھتا ہے۔
ایف سولہ طیارہ
امریکی طیارہ ساز کمپنی 'لاک ہیڈ مارٹن' کا تیار کردہ ملٹی رول ایف سولہ طیارہ گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان فضائیہ کے زیر استعمال ہے۔
یہ جہاز روس افغان جنگ کے دوران پاکستان کو فراہم کیے گئے اور اس کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کو اس کے بلاک 52 کے طیارے فراہم کیے گئے۔ پاکستان آج بھی ان جہازوں کی تعداد بڑھانے کا خواہش مند ہے۔
ایف سولہ طیارہ دوسرے طیاروں سے وزن میں کم ہے اور کسی بھی مشن کو مقابلتاً بہتر انداز سے انجام دے سکتا ہے۔ اسے 24 ممالک میں استعمال کیا رہا ہے۔ اس کی تیاری 1976ء میں شروع کی گئی تھی۔ اب تک اس قسم کے 4426 طیارے بن چکے ہیں۔ اس کا سرکاری نام فائٹنگ فیلکن ہے۔
ایف سولہ کے اسلحہ میں ایک عدد ایم-61 مشین گن ہے جبکہ یہ اے آئی ایم-9 سائیڈونڈر میزائل اور اے آئی ایم-120 ایمریم میزائل سے بھی لیس کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ F-16 مختلف بم، راکٹ اور ہوا سے زمین پر مار کرنے والے میزائل بھی لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ طیارہ ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
رافیل طیارہ
بھارت کے حوالے کیا جانے والا رافیل طیارہ فرانسیسی کمپنی 'دا سالٹ ایوی ایشن' کا تیار کردہ ہے۔ بھارت نے سال 2016ء میں فرانس سے 36 رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کا سودا پونے 9 ارب ڈالرز سے زائد مالیت میں کیا تھا۔
فرانس، مصر اور قطر کے بعد بھارت چوتھا ملک ہے جس کے پاس رافیل جنگی طیارہ ہے۔ یہ طیارہ 2222 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے اور ساڑھے نو ہزار کلو بم اور گولہ بارود لے جا سکتا ہے۔
یہ جوہری میزائل لے جانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی مار کرنے کی صلاحیت 3700 کلو میٹر ہے۔ اس میں فضا میں ایندھن بھی بھرا جا سکتا ہے۔
بھارت کے ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ رافیل طیارہ ملٹی رول ہے یعنی یہ کوئی بھی رول ادا کر سکتا ہے، چاہے فضائی بالادستی ہو یا گراؤنڈ سپورٹ ہو یا نیوکلیئر میزائل سے لیس ہو۔ یہ سب سے جدید طیارہ ہے اور اس کی صلاحیت امریکہ کے ایف 16 سے دو گنا ہے۔
اُن کے بقول، یہ ایک اسٹریٹجک ویپن کی طرح ہے۔ بھارت اس وقت اپنی اسٹریٹجک صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس میں یہ بھارت کی بڑی مدد کرے گا۔