پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق چیئرمین رمیز راجہ نے الزام عائد کیا ہے کہ کرکٹ بورڈ میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد انہیں ملک میں کمنٹری کرنے سے روک دیا جائے گا۔
رمیز راجہ کرکٹ بورڈ کی نئی انتظامیہ کے چارج سنبھالنے کے بعد چیئرمین پی سی بی کے عہدے سے الگ ہو گئے تھے جس کے بعد انہوں نے پہلی مرتبہ پیر کو اپنے یوٹیوب چینل پر مداحوں سے گفتگو پر مبنی ویڈیو جاری کی۔
رمیز راجہ نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جس طرح انہیں کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ سے ہٹایا گیا تھا شاید اب کرکٹ کمنٹری کے دروازے بھی ان پر بند کر دیے جائیں گے۔
ان کے بقول "مجھے کمنٹری میں نہیں لگایا جائے گا، اس لیے شائقین کو میرے بغیر ہی کمنٹری سننی پڑے گی۔"
رمیز راجہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ 20 سال سے کمنٹری ان کا پیشہ رہا ہے جس کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو تیار کیا تھا لیکن جب وہ پی سی بی میں آئے تو احساس ہوا کہ یہاں بہت کچھ ہے جو کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کمنٹری کی کوئی اہمیت نہیں۔
SEE ALSO: رمیز راجہ کی بطور پی سی بی چیئرمین کامیابیاں اور ناکامیاںدوسری جانب پی سی بی کے نئے حکام دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ رمیز راجہ کو ملک میں کمنٹری سے نہیں روکیں گے۔
پی سی بی کی عبوری انتظامی کمیٹی کے رکن شکیل شیخ نے رمیز راجہ کے الزام کو حیرت انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ کرکٹ بورڈ کے عبوری چیئرمین نجم سیٹھی پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ رمیز راجہ کو کمنٹری باکس میں خوش آمدید کہیں گے۔
رمیز راجہ نے اپنے یوٹیوب چینل پر مزید کہا کہ کرکٹ میں سیاست کا عمل دخل بالکل نہیں ہونا چاہیے یہ کھلاڑیوں کا کھیل ہے اور کرکٹرز کی پلینگ فیلڈ ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ نجم سیٹھی کو کرکٹ بورڈ میں لانے کے لیے پی سی بی کا آئین تک تبدیل کر دیا گیا تاکہ انہیں ایڈجسٹ کیا جا سکے۔ ایسا دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔
رمیز راجہ کے مطابق پی سی بی سے لوگوں کو عزت کے ساتھ روانہ کیا جانا چاہیے تھا ، تبدیلی کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے لیکن بورڈ میں حالیہ تبدیلیاں ایسے وقت میں کی گئیں جب غیر ملکی ٹیمیں پاکستان آ رہی ہیں۔
نجم سیٹھی کی ایک ٹوئٹ کا حوالہ دیتے ہوئے رمیز راجہ نے کہا کہ رات کو سوا دو بجے نجم سیٹھی نے ٹوئٹ کی کہ رمیز راجہ باہر ہو گئے ہیں اس لیے لوگ اب انہیں مبارک باد دینا شروع کر دیں۔
خیال رہے کہ 22 دسمبر کو رات دو بجے نجم سیٹھی نے سوشل میڈیا پر بیان جاری کیا تھا کہ رمیز راجہ کی قیادت میں کرکٹ کے منتظمین اپنے عہدوں پر مزید نہیں رہے جب کہ پی سی بی کا 2014 کا آئین بھی بحال کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کرکٹ کی بہتری کے لیے اقدامات کا بھی اسی بیان میں اعلان کیا تھا۔
رمیز راجہ نے الزام عائد کیا کہ ان لوگوں کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ لوگ کرکٹ کی ترقی اور ترویج کے لیے آئے ہیں۔ یہ لوگ چوہدراہٹ کے لیے آئے ہیں۔ ان کو شوق ہے کہ کسی طرح خبروں میں رہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نجم سیٹھی کرکٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، انہوں نے کبھی بلا تک نہیں اٹھایا۔ اور ایسے لوگوں کو چیئرمین لگا دیا جاتا ہے۔
بورڈ میں حالیہ تبدیلیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ساری دنیا میں ایسا صرف پاکستان میں ہو سکتا ہے کہ ایک بندے کو ایڈجسٹ کرنے یا اس کے بندے لانے کے لیے بورڈ کا آئین ہی بدل دیا جائے۔
SEE ALSO: آفریدی عبوری سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین مقرر، رزاق اور افتخار انجم بھی شامل'کمنٹری کے لیے رمیز کے انتخاب کی مخالفت نہیں کریں گے'
پی سی بی کے عبوری چیئرمین نجم سیٹھی نے پیر کو میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ رمیز راجہ کو کمنٹری سے کسی صورت میں بھی نہیں روکا جائے گا۔اگر کسی بھی مرحلے میں کمنٹری کے لیے ان کا انتخاب کیا جاتا ہے تو پی سی بی اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔
یوٹیوب پر مداحوں سے گفتگو میں رمیز راجہ نے آگاہ کیا کہ پی سی بی کے چیئرمین کے لیے تین سال کی مدت مقرر ہے۔ اگر کسی کی مدت مکمل ہو رہی ہو تو سمجھ آتی ہے کہ نئے چیئرمین کا تقرر کیا جائے لیکن مدت کے درمیان میں نیا شخص آ جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب کرکٹ سیزن کے درمیان میں کہا جا رہا ہے کہ مکی آرتھر کو لانے کی بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔
SEE ALSO: نجم سیٹھی کی کرکٹ بورڈ میں واپسی، بڑی تبدیلیوں کا امکانمقامی میڈیا میں ایسی رپورٹس آئی تھیں کہ نجم سیٹھی نے پی سی بی کا عبوری چیئرمین بننے کے بعد پاکستان ٹیم کے سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر سے رابطہ کیا ہے۔
نجم سیٹھی نے ان خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے خود مکی آرتھر سے رابطہ کیا تھا تاکہ وہ ان سے رائے لیں کہ پاکستان کے لیے کون کوچ بہتر رہے گا اور وہ خود خدمات انجام دے سکتے ہیں یا نہیں۔ البتہ انہوں نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
رمیز راجہ نے شکوہ کیا کہ اگر کرکٹ میں سیاسی مداخلت ہوگی اور انتظامی تسلسل برقرار نہیں رہے گا تو کرکٹ کی بہتری نہیں ہو سکے گی۔ بیک ڈور سے لوگ اندر آ جائیں گے تو ملک کی کرکٹ کا کیا لیول رہے گا؟ ایسے میں سسٹم، کرکٹ بورڈ، ٹیم اور کپتان پر دباؤ رہے گا۔