رسائی کے لنکس

کیا پنجاب کا سیاسی بحران ٹلنے کا کوئی امکان ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پنجاب میں سیاسی صورتِ حال میں فی الوقت کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ بظاہر عدالتی حکم پر اسمبلیوں کو تحلیل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ دوسری جانب پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کی باتیں بدستور جاری ہیں۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے۔

عمران خان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے ساتھ آئندہ انتخابات کے لیے صلاح مشورے کر رہے ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے کچھ حلقے یہ بھی چاہتے ہیں کہ موجودہ اسمبلیاں مدت پوری کریں۔

گزشتہ ہفتے پرویز الہٰی کی حکومت کے خاتمے کے بعد عدالتِ عالیہ نے ان کی حکومت کو بحال کر دیا تھا، جس میں اُن کی جانب سے تحریری طور پر عدالت کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔

اِس سے قبل گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی جانب سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر گورنر پنجاب نے پرویز الہٰی کو وزیرِ اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق یوں معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ق) بظاہر عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے لیکن وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں خود کو جمہوریت پسند کہتی ہیں لیکن ایسا لگتا نہیں ہے۔ ایک زمانے میں صدر کے پاس آئینی اختیار 58-ٹو-بی ہوا کرتا تھا جس کے ذریعے وہ حکومت کو برخاست اور اسمبلی کو تحلیل کر دیتے تھے۔ وہ تو اَب نہیں ہے لیکن جس طریقے سے پنجاب اسمبلی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا مراسلہ جاری کیا گیا ہے اُس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ 58 -ٹو-بی کو زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ عمران خان بھی سابق صدر غلام اسحاق خان کی طرح اسمبلیاں تحلیل کر کے حکومت توڑنا چاہتے ہیں۔ سب کا رول ماڈل غلام محمد اور غلام اسحٰق خان بن چکے ہیں۔

دوسری جانب تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل احمد وڑائچ کہتے ہیں کہ سیاسی اعتبار سے یہ ایک اچھی صورتِ حال نہیں ہے۔ یہ ایک ہنگامی صورتِ حال ہے۔ ایک طرح کا بحران ہے۔ ایسے نہیں لگ رہا کہ کسی کی بھی صوبہ پنجاب میں حکومت ہے۔ کبھی ایک جماعت حکومت میں ہوتی ہے تو کبھی دوسری جماعت برسرِ اقتدار ہوتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب کی سیاست میں کوئی استحکام نہیں ہے بلکہ عدم استحکام ہے۔ اُن کی رائے میں عام انتخابات تک یہ سیاسی بحران ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا، جس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کے پاس کم عددی اکثریت ہے۔ان کے بقول یوں معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات تک ایسی ہی صورتِ حال رہے گی۔

سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ سیاسی صورتِ حال کے باعث ملک کو عدم استحکام کا سامنا ہے۔ اِسی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک معاشی طور پر نیچے کی طرف جا رہا ہے، جس کے کسی بھی شعبے میں اچھے نتائج برآمد نہیں ہو رہے اور یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا۔

اطلاعات کے مطابق اتحادی حکومت کے رہنما پرویز الہٰی کو اسمبلی تحلیل کرنے سے روکنے کے لیے ایک منصوبے پر عمل پیرا ہیں، جس میں مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی کے ساتھ پسِ پردہ رابطے کیے جا رہے ہیں۔

حامد میر کی رائے میں اِس وقت پاکستان میں حقیقی معنوں میں کوئی حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعت ہے ہی نہیں۔ ساری سیاسی جماعتیں حکومت میں ہیں۔ صدر تحریکِ انصاف کا ہے جب کہ وزیرِ اعظم مسلم لیگ (ن) کا ہے۔ پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ اِسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں ہے۔ جسے یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ حکومت بمقابلہ حکومت ہے، حکومت بمقابلہ حزبِ اختلاف نہیں ہے۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں چوہدری پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینا چاہیے۔ ماضی میں بھی وزرائے اعلیٰ اعتماد کا ووٹ لیتے رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایک طرف عمران خان، پرویز الہٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہتے ہیں تا کہ حکومت مستحکم ہو اور دوسری جانب اسمبلی تحلیل کرنے کی بات کرتے ہیں جس سے حکومت مستحکم نہیٰں ہو گی۔

حامد میر سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اِس طرح پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ ایسے ہی حالات 1990 کی دہائی میں بھی تھے۔ جب منظور وٹو پیپلز پارٹی کی مدد سے غلام حیدر وائیں کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کر کے وزیراعلٰی پنجاب بنے تھے، جس کے بعد گورنر پنجاب تبدیل ہوئے۔ فواد چوہدری کے تایا چوہدری الطاف حسین گورنر پنجاب بنے۔ ایسی صورت میں پرویز الٰہی عدالتِ عالیہ لاہور چلے گئے اور حکومت کو بحال کرا دیا۔ جس کے بعد گورنر پنجاب نے سات سے آٹھ منٹ بعد دوبارہ حکومت توڑ دی۔

ان کا کہنا تھا کہ اِسی طرح 1985 میں بھی ہوا تھا۔ جب منظور وٹو پیپلز پارٹی کی مدد سے پہلے وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ جنہیں نکالنے کے لیے نواز شریف نے گورنر راج لگایا، جسے عدالتوں نے منسوخ کر دیا، جس کے بعد بے نظیر بھٹو نے منظور وٹو کو نکالنے کے لیے یہی کچھ دوبارہ کیا۔

حامد میر نے کہا کہ جو صورتِ حال آج پنجاب کی سیاسی اعتبار سے بنی ہوئی ہے۔ یہی صورتِ حال 1990 کی دہائی میں تھی۔ گورنر ہاؤس لاہور میں سازش ہوتی تھی۔ وزیراعلیٰ پنجاب اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہوتا تھا۔ اُس وقت منظور وٹو جونیجو لیگ کا حصہ تھے۔ جس کے پاس 10 سے 15 ارکانِ اسمبلی تھے۔ آج مسلم لیگ (ق) کے پاس 10 ارکان ہیں۔ اِنہی لڑائیوں کے نتیجے میں 1999 میں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا تھا۔

تحریکِ انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی تحلیل کے معاملے پر قانونی ماہرین نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو مختلف آرا سے آگاہ کیا ہے۔ اسمبلی کی تحلیل عدالتی حکم سے مشروط کر دی گئی ہے۔ عمران خان کو بتایا گیا ہے کہ 11 جنوری سے پہلے اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔ پی ٹی آئی کا 11 جنوری سے قبل اعتماد کا ووٹ لینے کا بیان صرف بیان نظر آرہا ہے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس حامد میر کے خیال میں پاکستان میں عام انتخابات اکتوبر یا نومبر 2023 میں ہوں گے اور جہاں تک بات ہے پی ٹی آئی کے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ الحاق ہونے کی، تو اُنہیں ایسا ہوتا نہیں دکھائی دے رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اِس وقت مجبوری میں پھنسی ہوئی ہے۔ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں ہو گی۔ اُن کے بقول پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں، جنہیں نہ نگلا جا سکتا ہے نہ ہی اُگلا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی سیاسی صورتِ حال بہتر ہو گی پرویز الٰہی اور عمران خان کے راستے جدا ہو جائیں گے۔

سینئر صحافی سہیل وڑائچ حامد میر کی بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ اُن کی نظر میں پاکستان میں عام انتخابات آئندہ برس سال مئی میں ہو جائیں گے۔

اُن کی رائے میں تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ق) کا جو اتحاد آج برقرار ہے، مستقبل میں بھی رہے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ اتحاد کتنی نشستوں پر ہوتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ سیاسی صورتِ حال میں پرویز الہٰی، عمران خان کو بہت عزیز ہیں البتہ جب وہ اقتدار سے نکل جائیں گے تو شاید وہ اتنے عزیز نہ رہیں۔

علاوہ ازیں پیر کو چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان کی زیرِ صدارت ایک اجلاس ہوا ہے جس میں سیاسی صورتِ حال، معاشی حالات اور دہشت گردی سمیت اہم امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ معیشت کا جنازہ نکال چکا ہے۔ اب عوام کے جان و مال کے تحفظ میں بھی حکمران بری طرح ناکام ہو رہے ہیں۔ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں 52 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔

XS
SM
MD
LG