پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ہفتے کو رات گئے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کے ہاتھ لگنے والی ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ کے مطابق ہفتے کی رات پی ٹی آئی کے ایک رہنما کے گھر پر فائرنگ کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا۔ جس کے دوران ہلاکتیں ہونا تھیں اور اس واقعے کو بڑے پیمانے پر مشتہر کیے جانے کا منصوبہ تھا۔
رانا ثنا اللہ کے مطابق آڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ سازش میں کسی پر ریپ کا جھوٹا الزام لگانا بھی شامل تھا۔ رات گئے پریس کانفرنس کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ اس مبینہ سازش سے قوم کو آگاہ کرنا چاہتے تھے۔
رانا ثنااللہ نے پریس کانفرنس میں بظاہر پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سفاک ٹولہ ہے، جسے شہدا کی نشانیوں کا احساس نہیں۔ انہوں نے گھروں کو لوٹا اور آگ لگائی ۔ ان کے بقول، انٹیلی جنس اداروں نے بروقت کارروائی کی ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ 9 مئی کو جن لوگوں نے عوام کو گمراہ کیا، جو لوگ گمراہ ہوئے اور دفاعی تنصیبات کو تباہ کیا، انہیں ہر ممکن سزا ملے گی۔ انہیں آرمی ایکٹ اور باقی سویلین اداروں پر حملوں میں ملوث افراد کے خؒلاف دہشت گردی اور عام عدالتوں میں کارروائی ہوگی۔رانا ثنا اللہ نے کہا کہ عمران خان نے جس نفرت کو پروان چڑھایا، وہ خود اس میں جل رہے ہیں اور مظلومیت کے ڈرامے کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ ناکام ہونگے۔
رانا ثنا اللہ کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں پی ٹی آئی آفیشل کے ٹوئٹر ہینڈل سے کی گئی سلسلہ وار ٹویٹس میں انسانی حقوق کے اداروں ہیومن رائٹس واچ، یونائٹڈ نیشنز ہائی کمشن فار ہیومن رائٹس اور ایمنیسٹی ایشیا کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے ، کہ’ ملک کے وزیر داخلہ نے یہ جانتے ہوئے کہ حکام کی غیر قانونی حراست میں موجود پی ٹی آئی کی حامی خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کی کس مذموم پیمانے پر خلاف ورزی کی جا رہی ہے، یہ پریس کانفرنس ان مبینہ جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے کی ہے۔ مزید یہ کہ رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ کوئی بھی خاتون اگردوران حراست ریپ کے الزام کے ساتھ سامنے آتی ہے، تو وہ جھوٹ ہی بول رہی ہوگی‘۔
اسی ٹوئٹر ہینڈل سے کی جانے والی ایک اور ٹویٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حامی زیر حراست خواتین کے خاندانوں اور وکلا کو فوری طور پر ان تک رسائی دی جائے اور ان خواتین کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ایک اور ٹویٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ حکام پاکستانی خواتین کی آواز کو دبانے کے لیے ریپ کو دباو اور جبر کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور وکیل جبران ناصر نے رانا ثنا اللہ کی ٹویٹ کے جواب میں ایک ٹویٹ کرتے ہوئے چند سوالات اٹھائے ہیں ، جن میں پوچھا گیا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جن کی فون کال انٹرسیپٹ کی گئی۔ وہ کون سا پی ٹی آئی رہنما ہے، جس کے گھر پر حملہ کیا جانا تھا اور پی ٹی آئی کے ارکان کس طرح یہ حملہ کرنا چاہتے تھے؟ کیا حملہ آوروں کو قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی وردیوں میں ملبوس ہونا تھا۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ کسی واضح تفصیل کے بغیر آپ کا بیان صرف ان متاثرہ خواتین کو بھی بے اعتبار کرے گا، جن کی شکایات حقیقی ہو سکتی ہیں اور جنہیں ممکن ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں کسی جنسی بد سلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
جبران ناصر نے اپنی ٹویٹ میں پوچھا ہے کہ کیا حکومت کا حالیہ کریک ڈاون پہلے ہی جبری گمشدگیوں ، رہنما ؤں کی بار بار کی گرفتاریوں ، ایک قومی سطح کی جماعت کو توڑنے پھوڑنے اور فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے اور دنیا بھر میں قانون سازوں کی جانب سے سامنے آںے والے مذمتی بیانات سے بین الاقوامی توجہ حاصل نہیں کر چکا؟
واضح رہے کہ ہفتے کے روز پاکستان میں ٹوئٹر پر پی ٹی آئی کی سرگرم حامی خواتین سے دوران حراست مبینہ بد سلوکی کے الزامات اور ان کی فوری رہائی کے مطالبات پر مبنی ٹرینڈز چلتے رہے۔ جبکہ عمران خان نے ایک ٹویٹ میں پی ٹی آئی کے رہنما علی نواز کھوکھر کے گھر پر چھاپے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور لکھا ہے کہ علی نواز کھوکھر کے گھر کا گیٹ توڑ دیا گیا ، جہاں ان کی بزرگ والدہ اور جسمانی معذوری کا شکار بہن قیام پذیر تھیں۔