پنجاب کے شہر راولپنڈی میں پولیس نے ایک شخص کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ مذکورہ شخص کی گرفتاری کے بعد مشتعل افراد نے تھانے کا گھیراؤ کر کے اس کی عمارت پر حملہ بھی کیا گیا۔
پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کرکے مشتعل افراد کو منتشر کیا جس کے بعد مذکورہ شخص اور اس کے بیٹے کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ۔ پولیس نے مذکورہ شخص کے خلاف دفعہ295 اے کے تحت توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔
امجد پراچہ نامی شخص کی مدعیت میں درج کردہ ایف آئی آر میں ایک مقامی شخص پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا ہے جس کے مطابق اس شخص نے دورانِ گفتگو ایسے الفاظ ادا کیے جس سے توہینِ مذہب ہوئی ہے۔
اس واقعے کے بعد پیر کو راولپنڈی اندرونِ شہر راجا بازار اور گنج منڈی کے علاقوں میں دکانیں بند کر دی گئیں جب کہ سینکڑوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور تھانے کا گھیراؤ کرلیا۔ان افراد کا مطالبہ تھا کہ ملزم کو ان کے حوالے کیا جائے۔
SEE ALSO: مسیحی خاتون سیکیورٹی اہلکار کو توہینِ مذہب کا الزام لگانے کی دھمکی، سرکاری ملازم معطلپولیس نے مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کی البتہ مشتعل افرادنے تھانے پر پتھراؤ کیا جب کہ ملزم کی دکان کو بھی آگ لگا دی گئی۔ رات گئے ہونے والے مذاکرات کے بعد مذکورہ شخص پر توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا جس پر مظاہرین منتشر ہوگئے۔
دوسری جانب ملزم کے بیٹے مسلم الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی کوئی بات ہوتی ہے تو اس کی تحقیق ضروری ہوتی ہے۔ان کے والد ریڈیو پر قرآن سن رہے تھے کہ امجد پراچہ نامی دکان دار وہاں آیا اور اس نے دوران گفتگو میرے والد کی کہی ہوئی باتوں کو مسئلہ بنا کر ان پر توہینِ مذہب کا الزام لگا دیا حالاں کہ والد نے ایسی کوئی گفتگو نہیں کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا پورا خاندان مذہبی ہے۔ہم ایسی کسی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم اسی مارکیٹ کی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں لیکن الزام لگانے والے نے پوری مارکیٹ کو جمع کیا اور ہماری دکان کو آگ لگا دی گئی۔ ہمارا بہت نقصان ہوا ہے۔ پولیس سے درخواست ہے کہ اس معاملے کی میرٹ پر تفتیش کی جائے۔
ادھر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی شخص پر صرف الزام کی وجہ سے حملہ کرنا اور اس کی جان و مال کو نقصان پہنچانا کسی طور بھی اسلامی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ریاست کا حق ہے کہ وہ ایسے الزام کی صورت میں فوری طور پر مکمل تحقیقات کرے اور اگر کسی شخص پر یہ الزام ثابت ہو تو اسے سزا دی جائے۔ لیکن ہجوم کے ذریعے فیصلے کرنا کسی صورت درست اقدام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ راولپنڈی واقعے میں بھی اگر کسی پر الزام عائد کیا جا رہا ہے تو اس میں ریاست اور پولیس ہی ذمہ دار ہے۔ وہ الزام لگانے والے اور ملزم کو دیکھے اور اگر کسی جگہ پر علما کی ضرورت ہو تو اس کا جائزہ لیا جائے۔ لیکن عوام کو اشتعال دلا کر سڑکوں پر لانا اورہجوم کے ذریعےفیصلے کرانا غیراسلامی ہے۔
راولپنڈی پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر مختلف علما پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو پورے واقعے کا جائزہ لے رہی ہے اور مقدمے کی تفتیش میرٹ پر کی جائے گی۔
SEE ALSO: مذہبی معاملات میں ریاست کو افراد کے سامنےنہیں جھکنا چاہیے: جسٹس عیسیٰپاکستان میں توہینِ مذہب انتہائی حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے، اگرچہ اس کے حوالے سے موجود قانون کے تحت سزائیں ملنے کی شرح انتہائی کم ہے جب کہ اس جرم کی سب سے بڑی سزا یعنی سزائے موت آج تک کسی مجرم کونہیں ملی۔ تاہم قانون کے غلط استعمال کے واقعات کا عمومی طور پر الزام لگایا جاتا ہے اور محض الزامات کی بنیاد پر ہی توہینِ مذہب کے ملزمان کو بے دردی سے قتل کرنے کے بھی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
حالیہ دنوں میں کراچی ایئرپورٹ میں سیکیورٹی پر مامور ایک مسیحی خاتون کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران بات نہ ماننے پر توہین مذہب کا الزام لگانے کی دھمکی دی گئی۔ تاہم خاتون نے اس واقعے کی ویڈیو بنا لی جس کے بعد مذکورہ شخص کے خلاف کارروائی کی گئی۔
سال 2021 میں سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ایک شہری کو سیالکوٹ میں ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کردیا تھا اور اس کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔
گزشتہ برس فروری میں صوابی میں ٹی ایم اے کے ایک افسر کو مشتعل ہجوم نے مارنے کی کوشش کی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا تھا۔
سال 2013 میں لاہور کی جوزف کالونی میں ایک مسیحی شخص پر توہین مذہب کا الزام لگنے کے بعد اس آبادی پر حملہ کیا گیا اور 178 مکانات اور دکانوں کونقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ایک چرچ کو بھی آگ لگا دی گئی تھی۔