سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ مذہب سے متعلق معاملات افراد کے ہاتھوں میں نہیں دیے جاسکتے بلکہ ریاستی مشینری کو انہیں انتہائی صلاحیت اور احتیاط سے دیکھنا چاہیے۔
جسٹس فائزعیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل بینچ توہینِ مذہب سے متعلق ایک کیس کی سماعت کررہا تھا جس میں ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے ملزم کی ضمانت لینے سے انکار کردیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد ملزم کی ضمانت منظور کرلی۔
دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مذہبی معاملات میں ریاستی مشینری کو لوگوں کے سامنے جھکنا نہیں چاہیے۔
ملزم کے خلاف کیس کیا ہے؟
سپریم کورٹ میں ملزم ایڈوکیٹ زاہد ظفر کے وکیل عبدالحمید خان رانا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے مؤکل پر رواں سال اپریل میں ایک توہین آمیز پوسٹ شیئر کرنے کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔
وکیل نے بتایا کہ مقدمے سے کچھ دن قبل ان کے موکل زاہد ظفر کے خلاف ایک شکایت بھی آئی تھی کہ انہوں نے مذہب سے متعلق توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں جس پر ڈپٹی کمشنر ملتان نے انہیں نظر بند رکھا لیکن بعد ازاں رہا کردیا گیا تھا۔ کچھ دن بعد زاہد ظفر کے خلاف توہین آمیز پوسٹ واٹس ایپ گروپ میں شیئر کرنے پر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ295 سی کے تحت مقدمہ درج کردیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت درج ہونے والے مقدمے کی سزا موت ہے۔
عبدالحمید خان نے بتایا کہ زاہد ظفر کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم سیل ملتان نے 295 سی اور سیکشن 11 پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ ایف آئی اے نے ان کے موبائل کا فارنزک کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ زاہد ظفر کے موبائل سے ایک توہین آمیز پوسٹ شیئر کی گئی ہے۔
ایف آئی اے نے یہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج کر پوچھا کہ اس قسم کی توہین میں کن دفعات کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ جس پر اسلامی نظریاتی کونسل نے جواب دیا کہ اس میں 295 سی کے تحت کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ البتہ دفعات 295 اور 298 کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔
اس پر ایف آئی اے نے دوبارہ تفتیش کی درخواست کی اور کہا کہ اس معاملے میں 295 سی کے تحت کارروائی نہیں ہوسکتی۔
ملزم کے وکیل عبدالحمید خان نے بتایا کہ ایف آئی اے کی درخواست میں اختیار کیے گئے مؤقف کے باوجود اس کیس میں سیشن جج نے 295 سی کے تحت ہی کارروائی شروع کردی اور مذکورہ دفعات نکالنےکی استدعابھی خارج کردی۔ ساتھ ہی عدالت نے ملزم کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کردی۔
عبدالحمیدخان نے بتایا کہ ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں درخواست دائر کی گئی لیکن وہاں سے بھی ضمانت کی استدعا مسترد کردی گئی جس کے بعد ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں عدالت نے ملزم کی ضمانت منظور کرلی ہے۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ملزم زاہد ظفر کو اس کیس میں گذشتہ نو ماہ سے جیل میں رکھا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور ایف آئی اے کی رائے کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ایسی دفعات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا تھا جس کی سزا موت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ہم دوبارہ سیشن کورٹ میں جائیں گے اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ملزم زاہد ظفر کی بریت کی درخواست دائر کریں گے۔
عبدالحمید خان کا مزید کہنا تھا کہ یہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے جس میں قوانین کا غلط استعمال کیا جاتاہے۔ اس کیس میں زاہد ظفر نے پوسٹ خود نہیں بنائی تھی بلکہ اس پر شیئر کرنے کا الزام تھا۔
سپریم کورٹ میں کیا ہوا؟
جمعےکو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل بینچ نے توہینِ مذہب کے کیس میں ضمانت کے معاملے پر درخواست کی سماعت کی۔
عدالت میں جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے فرد جرم میں دفعہ نہیں لگائی۔ اس لیے جب ملزم کو پتہ ہی نہیں کہ اس نے کیا جرم کیا ہے تو وہ اپنا مقدمہ کیسے لڑے گا؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہ کیس 295 سی کے تحت آتا ہے؟ اس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کوئی واضح جواب نہیں دیا اور کہا کہ ایف آئی اے نے شکایت پر معاملے کی انکوائری کی تھی۔
اس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ ریاست کے وکیل ہیں۔ آپ کا مؤقف عامیانہ نہیں ہونا چاہیے، آپ کو پتہ ہونا چاہیےکہ کس جرم میں کیا دفعہ لگتی ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے نے اس کیس میں اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے بھی لی تھی اور کونسل نے بھی کہا کہ یہ معاملہ دفعہ 295 سی کے تحت نہیں آتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے۔ اگر ایک آئینی ادارے کی رائے پر عمل نہیں کرنا تو اسے بند کردیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کب آئی تھی جس پر ملزم کے وکیل عبدالحمید خان رانا نے بتایا کہ کونسل نے 8 جون 2022 کو اپنی رائے دی تھی۔
اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کے باوجود ضمانت مسترد کردی؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مذہب سے متعلق ہر کیس کا تعلق ریاست سے ہوتا ہے۔مذہب سے متعلق معاملات افراد کے ہاتھوں میں نہیں دیے جاسکتے،ان معاملات کو ریاستی مشینری کو انتہائی صلاحیت اور احتیاط سے دیکھنا چاہیے۔
جسٹس فائز نے ریمارکس دیے کہ مذہب کے معاملات میں ریاستی مشینری کو افراد کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے۔اس معاملے میں مذہب سے متعلق کیس میں ٹرائل کورٹ نے فردِ جرم عائد کی لیکن جو اصل دفعہ لگتی تھی وہ نہیں لگائی۔
عدالت میں کیس کے مدعی عام شہری زبیرالحسن کے وکیل نے بھی دلائل دیے۔البتہ عدالت نے ایف آئی اے کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہارکیا اور کہا کہ کیس مزید تفتیش کا متقاضی ہے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض ملزم زاہد ظفر کی ضمانت منظورکرلی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے کیسز میں عام طور پر ٹرائل کورٹس ملزمان کو ضمانت نہیں دیتیں اوردستیاب شواہد پر سزائیں سنا دیتی ہیں۔کئی کیسز میں توہینِ مذہب کے الزامات غلط ثابت ہوئے لیکن اس سے قبل ملزمان کو کئی سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا ہے۔
توہینِ مذہب کے بعض کیسز میں صرف الزام کی بنا پر ملزم کو حملہ آور ہجوم کے ہاتھوں تھانے میں ہی تشدد اور جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں۔