پاکستان میں جنرل عاصم منیر کی بطور چیف آف آرمی اسٹاف تعیناتی کو بھارت میں بھی اہمیت دی جا رہی ہے۔ بھارت میں صفِ اول کے اخبارات اور نیوز چینلز نے پاکستانی فوج میں ہونے والی تعیناتیوں کو اپنی شہ سرخیوں میں شامل کیا۔
بھارت میں اس حوالے سے ہونے والے تجزیوں اور تبصروں میں یہ نکتہ موضوعِ بحث رہا کہ نئے آرمی چیف کے آنے سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کیا فرق پڑے گا۔
بعض اخبارات نے اس معاملے پر اداریے اور مضامین بھی شائع کیے۔
بھارتی میڈیا پہلے سے ہی اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے تھا اور یہ جاننے کی کوشش کر رہاتھا کہ ایسے ماحول میں جب پاکستانی سیاست عدم استحکام سے دوچار ہے تو آرمی سربراہ کا تاج کس کے سر پر سجتا ہے۔
کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے اس سلسلے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے اور ایک علیحدہ نیوز آئٹم میں لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کی سابقہ خدمات کی تفصیل پیش کی ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں فوجی سربراہ کی حیثیت سے عاصم منیر کا تقرر ہوا ہے جب پاکستان کو کمزور معیشت اور دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ اتفاق ہے کہ ان کا تقرر فوج اور سابق وزیر ِاعظم عمران خان کے درمیان جنہوں نے حکومت سے اپنی معزولی کے لیے امریکہ اور فوج کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے، تنازعات کے درمیان ہوا۔
اخبار لکھتا ہے کہ فوج کو تاریخی طور پر پاکستان کی ملکی سیاست اور خارجہ پالیسیوں کے اہم محرک کے طور پر جانا جاتا ہے۔لہذٰا جنرل عاصم منیر کے تقرر کا پاکستان کی کمزور جمہوریت، ہمسایہ ملکوں بھارت اور افغانستان کی طالبان حکومت اور چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات اور پالیسیوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔
اخبار نے سابق وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان بھی نمایاں طور پر شائع کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ دہشت گردی مخالف جنگ میں پاکستان کو ’کرائے کی بندوق‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
ایک اور کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ اپنے اداریے میں عمران خان اور فوج کے درمیان ٹکراؤ کے تناظر میں لکھتا ہے کہ پاکستان کے عوامی حلقوں میں ایسا احساس ہے کہ اس تنازع سے فوج کا وقار کم ہوا ہے اور سیاست میں فوج کی مداخلت سے مایوسی بھی بڑھ رہی ہے۔
اخبار کے مطابق اس پر گہری نظر رہے گی کہ کیا نئے آرمی چیف اس عدم اطمینان کو ختم کر سکیں گے۔ عمران خان بالخصوص انتخابات کے دوران چیلنج پیش کرنے والا حریف بن سکتے ہیں۔
اخبار کا مزید کہنا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستانی معیشت میں استحکام لانے کے لیے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے تھے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کے جانشین اس مؤقف کو جاری رکھتے ہیں یا نہیں۔
انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ نے اداریہ کے علاوہ پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر شرت سبھروال اور اسٹرٹیجک امور کی نیشنل ایڈیٹر نروپما سبرامنین کا ایک وضاحتی مضمون بھی شائع کیا ہے۔
اخبار اپنے اداریے میں عاصم منیر کے تقرر سے قبل کے واقعات کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ بھارت کے تعلق سے جنرل باجوہ کا دور ملا جلا رہا ہے۔
انہوں نے بھارت کے ساتھ قیامِ امن کی نواز شریف کی کوششوں کو مسترد کر دیا تھا اور ان کے دور میں ہی سابق وزیرِ اعظم کو ’عدالتی بغاوت‘ کے توسط سے حکومت سے ہٹا دیا گیا۔
اخبار کے مطابق بعد کے برسوں میں جنرل باجوہ نے بھارت کے سامنے امن کا ہاتھ بڑھایا اور اس بات کا اشارہ دیا کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت شروع کرنی چاہیے۔ انہی کے دور میں پاکستانی فوج نے ایل او سی پر 2003 کے سیز فائر کو سختی سے نافذ کرنے کا معاہدہ کیا۔
وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ‘ کے دباؤ کی وجہ سے کراس بارڈر دہشت گردی میں کمی آئی ہے۔ لیکن اب بھارت کے زیر ِانتظام کشمیر میں ڈرونز کے ذریعے ہتھیار او رمنشیات گرائی جا رہی ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ ان کے جانشین اس صورتِ حال کو جاری رکھتے ہیں یا نہیں۔
اخبار کے مطابق جب2019 میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے پلوامہ میں بھارت کے نیم مسلح دستے کے قافلے پر حملہ ہوا تھا تو عاصم منیر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ تھے۔ بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن ورتھمان کی رہائی کے پس پردہ انہی کا ہاتھ تھا۔ اخبار زور دے کر کہتا ہے کہ اِس وقت بھارت کے لیے صورتِ حال پر نظر رکھنے کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں ہے۔
شرت سبھروال اپنے مضمون میں پاکستانی سیاست و معیشت کی حالیہ صورت حال اور نئے سربراہ کے سامنے درپیش چیلنجز کی تفصیلات پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ عاصم منیر ناردرن ایریاز میں پاکستانی فوج کے کمانڈر اور گوجرانوالہ کے کور کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ دونوں عہدوں کی توجہ بھارت پر رہتی ہے۔
ان کے مطابق متعدد چیلنجز اور غیر مستحکم معیشت کے پیشِ نظر عاصم منیر گزشتہ دو یا اس سے زائد برسوں سے بھارت کے تعلق سے تحمل برتنے کی جنرل باجوہ کی پالیسی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
نروپما سبرامنین نے اپنے تفصیلی مضمون میں پاکستان کی موجودہ سیاست، عمران خان اور فوج کے مابین رسہ کشی اور جنرل باجوہ اور جنرل عاصم منیر کی سابقہ خدمات اور عاصم منیر کو درپیش چیلنجز کا احاطہ کیا ہے۔
وہ آخرمیں لکھتی ہیں کہ عاصم منیر پلوامہ حملے کے موقع پر آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ بھارتی فضائیہ کی کارروائی اور پاکستانی فضائیہ کی جوابی کارروائی کے دوران بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن ورتھمان کی رہائی کے لیے مبینہ طور پر عاصم منیر سے بات کی تھی۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنرل باجوہ سے قربت کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا عاصم منیر ’جیو اکانومکس‘ اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں اپنے پیش رو کے خیالات شیئر کریں گے۔