بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن ’'ٹیررستان'‘ سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر دہشت گردی کی ایک پوری صنعت قائم کر رکھی ہے۔
بھارت کے نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کے مطابق نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے اور کشمیر کو یونین کا حصہ بنانے پر پاکستان کا رد عمل اب مایوسی میں بدل رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے فیصلے سے بھارت کی داخلی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ بھارت کے کشمیر سے متعلق اقدام پر پاکستان اور چین کا رد عمل فطری تھا۔
بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے کشمیر کے معاملے پر بھارت کے خلاف دہشت گردی کی ایک پوری صنعت تیار کی تھی اور اب پاکستان کو اس صنعت میں اپنی 70 سالہ سرمایہ کاری ڈوبتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا غصہ اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج کے دور میں دہشت گردی کے بل بوتے پر ریاست کو نہیں چلایا جا سکتا۔
تنازع کشمیر پر مذاکرات کے سوال پر بھارت کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ معاملہ صرف کشمیر کا نہیں ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 2008 میں ممبئی میں حملہ ہوا تھا۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کے ان علاقوں میں دہشت گردی کرائی گئی جن کا کشمیر سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں تقسیم ہند کے بعد سے ہی اتار چڑھاؤ رہا ہے اور کشمیر کے معاملے پر دونوں ملک تین جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔
رواں سال بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی بس پر خود کش حملے میں چالیس سے زائد فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔
بھارت نے ان حملوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔
ردعمل کے طور پر پاکستان نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب ہونے والی فضائی کارروائی کے دوران بھارتی فضائیہ کے دو طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
ایک طیارہ پاکستان کی حدود میں گرا تھا جس کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو حراست میں لینے کے بعد بھارت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے عوام کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کرتا ہے، جب کہ بھارت پاکستان پر یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے دہشت گرد بھارتی کشمیر میں دراندازی کرتے ہیں۔
بھارت کی جانب سے 5 اگست کے اقدامات کے بعد خطے میں جنگ کے بادل منڈلانے لگے تھے۔ تاہم، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ خطے میں کشیدگی کم ہو رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش بھی کی تھی۔ تاہم، بھارت کا یہ مؤقف ہے کہ شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کے تحت پاکستان اور بھارت دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے تنازعات حل کرنے کے پابند ہیں۔