کرونا وائرس کی عالمی وبا جہاں صحتِ عامہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئی ہے وہیں روز مرہ زندگی میں بھی اس نے بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ ان میں سے بعض تبدیلیاں ایسی ہیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی شاید ممکن نہیں تھا۔ ایسی ایک نمایاں تبدیلی گھر سے دفتری کام یا ’ورک فرام ہوم‘ بھی ہے۔
کرونا وبا کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں کی بنا پر جب 'ورک فرام ہوم' کا سلسلہ شروع ہوا تو ابتدا میں بیش تر ملازمین کو اس سے مطابقت پیدا کرنے میں کسی نہ کسی دشواری کا سامنا رہا۔ لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں میں ملازمین کی بڑی تعداد دفاتر واپس آنے پر تیار نہیں۔
لیپیکا راماسوامی سان فرانسسکو کی ایک کمپنی میں ڈیٹا سائنٹسٹ کے طور پر وبا کے دوران ٹیکساس سے دفتری امور سر انجام دے رہی تھیں۔ وہ وبا کے مکمل خاتمے تک ٹیکساس میں اپنی بہن کے ساتھ ہی رہنا چاہتی تھیں۔ وبا کا زور تھمنے کے بعد وہ اس انتظار میں تھیں کہ کب انہیں دفتر واپس بلایا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ ماہ جب انہیں ملازمت پر دفتر واپس بلایا گیا تو لیپیکا نے استعفیٰ دے دیا۔
اپنے اس فیصلے کے بارے میں وائس آف امریکہ کی رپورٹر ڈینا میچل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ وبا کا واقعی خاتمہ ہو گیا ہے۔ کسی نے وبا ختم ہونے کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی میں جانتی ہوں کہ اگلی لہر کب آ رہی ہے اور وہ کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ وبا ختم ہونے کا انتظار کسی پُر فضا مقام پر اپنے خاندان کے ساتھ کرنا چاہتی ہیں۔
لیپیکا کی کہانی انوکھی نہیں ہے بلکہ شہروں کی ہنگامہ خیزی سے دور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ وقت گزارنے والے کئی ایسے امریکی ہیں جو زندگی کی ڈگر تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ میں صرف اپریل کے مہینے میں تقریباً 40 لاکھ افراد نے ملازمت چھوڑی۔ یہ امریکہ کی کل ورک فورس کا دو اعشاریہ سات فی صد حصہ بنتا ہے۔
یو ایس لیبر ڈپارٹمنٹ کے مطابق گزشتہ 20 برسوں کے دوران کسی ایک مہینے میں نوکریاں چھوڑنے کی یہ سب سے بلند شرح ہے۔ مئی اور جون میں بھی ملازمتوں کو خیرباد کہنے والوں کی شرح لگ بھگ یہی رہی۔
غیر معمولی تعداد میں ملازمتیں چھوڑنے کے اس رجحان کو کاروباری امور کے ایک ماہر انتھونی کلاٹز نے 'گریٹ ریزگنیشن' کا نام دیا ہے۔
لوگ ملازمتیں کیوں چھوڑ رہے ہیں؟
انتھونی گزشتہ کچھ عرصے سے امریکہ میں استعفوں کی صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ کی نمائندہ ڈینا میچل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران امریکہ میں استعفوں کی تعداد اور شرح آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی ہے اور پھر 2020 میں وبا کی بعد یہ عروج پر پہنچ گئی ہے۔
ان کے بقول، "مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے استعفیٰ دے دیا ہوتا لیکن وہ کرونا کی وبا کی وجہ سے نوکریوں پر جمے رہے۔"
یہ اس صورتِ حال کا محض ایک پہلو ہے۔ انتھونی کہتے ہیں کہ اس رجحان میں اضافہ کرنے والے دیگر عوامل میں فرنٹ لائن ورکرز کی تھکن، گھر سے کام جاری رکھنے کی خواہش اور زندگی کی ترجیحات کا از سرِ نو جائزہ لینا شامل ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ سبھی اسباب یکجا بھی ہوسکتے ہیں۔
کم فرینکلن کیلی فورنیا کے ایک اسکول میں پرنسپل کے عہدے پر فائز رہیں۔ انہوں نے تعلیم کے شعبے میں اپنے 20 سالہ کریئر کو اپنی تھکاوٹ اور ٹینیسی میں اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کی خواہش پر قربان کر دیا۔
انہوں ںے وائس آف امریکہ کو بتایا، "ایک استاد کے طور پر میرے لیے گزشتہ 15 ماہ کا عرصہ پاگل کر دینے والا تھا۔ پھر بچوں اور ان کے گھر والوں کی آن لائن مدد کے طریقے تلاش کرنا اور ساتھ ساتھ اپنے عملے کی ایسے میں سپورٹ کرنا جب وہ تدریس کے ایک بالکل نئے طریقے کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، یہ سب میرے لیے بہت زیادہ اور تھکا دینے والا کام تھا۔"
لوگوں کی ترجیحات بدل رہی ہیں
گزشتہ دنوں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے لیبر ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ رواں برس اپریل میں امریکہ میں خالی آسامیوں کی تعداد 93 لاکھ تک پہنچ گئی تھی جو کہ گزشتہ 20 برسوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
ایمپلائمنٹ ویب سائٹس کا کہنا ہے کہ ملازمتوں کے اعلانات میں بھی مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ملازمین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر ریستورانوں، سیاحتی اور تفریحی مقامات کے آجروں کے مابین مقابلہ بڑھتا جارہا ہے۔ آجر زائد اجرتوں اور بونس سمیت دیگر مراعات کے ساتھ اوقاتِ کار میں بھی سہولت کی پیش کش کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ میں بے روزگاری کی شرح میں تیزی سے کمیگزشتہ برس کے دوران بونس کے وعدوں کے ساتھ دی جانی والے ملازمتوں کے اشتہارات میں اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ملازمتوں کے لیے امیدواروں کی عدم دلچسپی کے مختلف اسباب ہیں۔
کئی امریکیوں کو پرہجوم مقامات پر کام کرنے میں صحت سے متعلق تحفظات لاحق ہیں۔ تقریباً 15 لاکھ افراد جن میں خواتین کی اکثریت ہے، صرف اس لیے ملازمت نہیں کر رہے یا اس کی تلاش میں نہیں کہ انہیں گھر پر رہ کر بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے کیوں کہ وبا کے باعث اسکول اور ڈے کیئر سینٹرز بند پڑے ہیں۔
اندازاً 26 لاکھ ورکرز وہ ہیں جن کی عمریں زیادہ ہیں اور انہوں نے اسٹاک میں منافع اور گھروں کی بڑھتی قیمتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
گیلپ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق امریکہ کی کام کرنے والی آبادی میں سے 48 فی صد افراد نئے ملازمتوں اور مواقع کی تلاش میں سرگرم ہیں۔
'اسپارکس فائیو' نامی کمپنی کی سی ای او اینڈریا اس بارے میں کہتی ہیں کہ ذہنی دباؤ کی صورتِ حال کے دوران کئی لوگوں نے زندگی کے بارے میں اپنی ترجیحات کا از سرِ نو جائزہ لیا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ تقریباً ایسی بات ہے جیسے لوگ یہ سوچنے لگیں کہ اچھا اگر ہمارے پاس بس تھوڑا سا وقت باقی بچا ہو تو ہم کیسے یہ یقینی بنائیں کہ ہم وہی کام کر رہے ہیں جو واقعی ہم دل سے کرنا چاہتے ہیں۔
دفاتر کے ماحول سے متعلق اپنی ایک حالیہ تحقیق میں گیلپ نے کہا تھا کہ یہی وہ وقت ہے جب آجروں کو اپنے ملازمین میں کام سے وابستگی برقرار رکھنے کے لیے حکمتِ عملی پر کام کرنا شروع کردینا چاہیے۔
گیلپ کی تحقیق کے مطابق بڑے پیمانے پر ملازمتوں سے استعفے کے رجحان کے اسباب یہ نہیں کہ لوگوں کو اپنے شعبے، اپنی ذمے داریوں یا تنخواہ سے مسئلہ ہے۔ بلکہ اس کا تعلق کام کی جگہوں یا ورک پلیس سے ہے۔
کمپنیوں کو اس معاملے میں کافی مشکل پیش آ رہی ہے کہ گھر سے کام کرنے کے خواہش مند ملازمین کی درخواستوں کا کیا جواب دیا جائے۔
کئی کمپنیاں دفتر آ کر کام کرنے والے ملازمین سے متعلق پالیسیاں بہتر بنانے پر کام کر رہی ہیں تاکہ جب لوگوں کی 'ورک فرام ہوم' سے واپسی ہو تو انہیں بہتر ماحول اور سہولتیں فراہم کی جاسکیں۔ 'ایپل' اور بعض دیگر کمپنیوں کے ملازمین متوقع طور پر اکتوبر سے تین دن دفتر آ کر کام کرنا شروع کریں گے۔
رام سوامی کا دفتر کیلی فورنیا کے علاقے سان ڈیاگو سے باہر ہے جو ان سے کافی فاصلے پر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں ہم میں سے بہت سے لوگ شہروں میں صرف اس لیے زندگی گزار رہے ہیں کیوں کہ ہمارے پاس کوئی متبادل کریئر نہیں ہوتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کی کمپنیاں دفاتر کے ماحول میں تبدیلیوں کے تجرباتی دور سے گزر رہی ہیں۔
کمپنیوں کے انتظامی عہدے دار محض یہ کہنے پر اکتفا نہیں کر رہے کہ ہاں ملازمین نوکریاں چھوڑ رہے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ وہ اپنے ملازمین سے بات کر رہے ہیں، ان کی بات سن رہے ہیں اور اپنے ردِ عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملازمین کی جانب سے نئے کریئرز اپنانے اور ملازمت بدلنے کے سلسلے کے ساتھ یہ ’گریٹ ریزگنیشن‘ کئی ماہ جاری رہ سکتا ہے۔ اس میں جو بات غیر یقینی ہے وہ یہ کہ جب لوگ معمول کی جانب لوٹیں گے تو دفتر کا ماحول کتنا بدل چکا ہوگا اور اپنی ملازمت کے متعلق ان کے نکتۂ نظر میں کتنی تبدیلی آ چکی ہوگی۔
دوسرا نکتۂ نظر
’فوربز‘ میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں ملازمین بھرتی کرنے والی (ریکروٹمنٹ) کمپنی کے سی ای او جیک کیلی کے نزدیک ملازمتوں کو چھوڑنے کے حالیہ رجحان کو ’گریٹ ریزگنیشن‘ قرار دینا مبالغہ ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ حال ہی میں انشورنس اور فنانشنل سروس کے بڑے ادارے 'پروڈینشیئل' نے ایک تحقیق کی جس میں سامنے آیا کہ ہر تین میں سے ایک امریکی کا کہنا ہے کہ اگر ان کے آجر کام کے لیے انہیں کل وقتی دفتر بلائیں گے تو وہ ملازمت چھوڑ دیں گے۔
جیک کیلی کا کہنا ہے کہ اسی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ سروے میں شریک ورکرز کی ایک چوتھائی تعداد نئی ملازمتوں کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں 'ٹیلنٹ وار' کا سامنا ہوگا۔
SEE ALSO: امریکہ میں نوکریاں ہی نوکریاں، 'ٹین ایجرز' بھی 'کماؤ پُوت' بن گئےان کے بقول یہ منطقی بات ہے کہ بعض لوگ نئی ملازمتیں تلاش کریں گے۔ لیکن کیا یہ سب اپنی نوکریاں چھوڑ دیں گے؟ تو ظاہر ہے ایسا نہیں ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ سروے میں کوئی بھی دو ٹوک بات کرسکتا ہے۔ اگر لوگوں سے پوچھا جائے کہ انہیں کام کرنے کے لیے دفتر آنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو کیا وہ نوکری چھوڑ دیں گے؟ تو وہ اس کا جواب اثبات میں دے سکتے ہیں۔ لیکن انہیں اگر اس فیصلے کے بارے میں سوچنے کا موقع دیا جائے تو انہیں فوری ادراک ہوگا کہ کسی دوسری ملازمت کی پیش کش کے بغیر یہ فیصلہ عقل مندی نہیں ہوگا۔