شمالی شام میں باغی گروپوں اور کسی وقت اُن کے القاعدہ سے منسلک رہنے والے ساتھی، ’جہبت فتح الإسلام‘ کے درمیان جھڑپیں شدت اختیار کر گئی ہیں، جب کہ جہادیوں نے اپنے سابق اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ اُن کے خلاف ہونے والی سازش میں شامل ہوگئے ہیں۔
آپس کی یہ لڑائی منگل کے روز اُس وقت شروع ہوئی جب روس کی ثالثی میں ہونے والے امن مذاکرات قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں بے نتیجہ ختم ہوئے، جس کے بعد جہادیوں اور معتدل اسلام پسند اور سیکولر گروپوں کی قیادت کے کے اندر مقابلے کی صورت پیدا ہوگئی ہے، جو شمال مغربی شام میں باغیوں کے زیر کنٹرول باقی ماندہ علاقہ ہے۔
اِس چپقلش کا باعث حالیہ دِنوں امریکی قیادت والے اتحاد کی جانب سے ٹھیک ٹھیک نشانے پر کی گئی فضائی کارروائی بتائی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں شام میں 100 سے زائد جہادی عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔
’جہبت فتح الإسلام‘، جسے سابقہ ’النصرہ محاذ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کہا ہے کہ ایک فضائی حملے میں اُس کے ایک کیمپ کو نشانہ بنایا گیا۔ اسے شبہ ہے کہ ہدف بنانے کی اطلاع اُن کےدیگر باغی گروپوں نے دی۔ یہ بات مغربی حمایت یافتہ ’فری سیرئن آرمی‘ کی میلشیاؤں نے کہی ہے۔
’جہبت فتح الشام‘ نے کہا ہے کہ اُس کے لڑاکوں نے مخالف گروپوں پر حملہ کیا، تاکہ اُن کے خلاف کی گئی ’’سازش‘‘ سے بچا جا سکے۔ اُس نے باغی گروپوں کی لڑائی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جو وہ گذشتہ تقریباً چھ برس کے دوران صدر بشار الاسد کو ہٹاتے کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سنگین نوعیت کی اِن جھڑپوں کے نتیجے میں، جنگ سے تباہ حال ملک میں باغی اتحاد پارہ پارہ ہونے کے آثار نمودار ہوگئے ہیں۔
فری سیرئن آرمی سے ملحقہ مخالف گروپوں نے جنگ بندی کی تجویز پیش کی ہے۔ لیکن، فوری طور پر، اس ضمن میں کوئی اقدام سامنے نہیں آیا۔ فری سیرئن آرمی کے کمانڈروں کا کہنا ہے کہ ’فتح الشام‘ کو حقیقی طور پر جنگ بندی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ تاہم، اُس کا مقصد یہ لگتا ہے کہ شمال میں لڑائی کے محاذ پھر سے طے ہوں، جب کہ ادلب اور مغربی حلب میں وہ کنٹرول کے حصول کی پنچہ آزمائی میں سرخرو ہوں۔
سرگرم سیاسی کارکن اور ’سیرئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘، جو مبصرین کے گروپ پر مشتمل ہے، کا کہنا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ یہ جھڑپیں ادلب اور مغربی حلب کے مضافات سے لاذقیہ کے ساحلی علاقے کی جانب پھیلتے جا رہے ہیں۔