بھارت میں گزشتہ چند روز سے کرونا وائرس کے مثبت کیسز میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ البتہ اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
چند روز قبل تک بھارت میں کرونا کے یومیہ کیسز کی تعداد چار لاکھ سے زائد رپورٹ ہو رہی تھی جس میں اب کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق بدھ کو کرونا کے مزید دو لاکھ 67 ہزار 334 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس کے بعد کیسز کی مجموعی تعداد دو کروڑ 54 لاکھ 96 ہزار 330 تک پہنچ گئی ہے تاہم اموات میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔
بھارت میں بدھ کو کرونا سے چار ہزار 529 اموات ریکارڈ ہوئیں جو کہ کرونا سے سب سے زیادہ یومیہ اموات کا عالمی ریکارڈ ہے۔
اس سے قبل امریکہ میں ایک دن میں سب سے زیادہ چار ہزار 475 اموات ریکارڈ کی گئی تھیں۔
بارہ مئی کے بعد سے بدھ کو ساتویں بار ملک میں ایک دن میں چار ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
مودی کی مقبولیت میں کمی
کرونا بحران سے بری طرح متاثرہ بھارت میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت پر کرونا سے نمٹنے میں لاپروائی اور ناکامی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں اور اس سے مودی کی مقبولیت میں کمی بھی ہوئی ہے۔
امریکہ کی ڈیٹا اینٹلی جنس کمپنی 'مارننگ کنسلٹ' کی ایک رپورٹ کے مطابق اگست 2019 کے بعد سے مودی کی مقبولیت نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے۔
درجنوں عالمی رہنماؤں کی ریٹنگ مرتب کرنے والی کمپنی کی رپورٹ کے مطابق اس وقت مودی کی ریٹنگ 63 فی صد ہے۔
مذکورہ ایجنسی کے مطابق نریندر مودی 2014 اور پھر 2019 میں زبردست اکثریت سے اقتدار میں آئے تھے لیکن کرونا سے نمٹنے میں ان کی حکومت کی کم تیاری کے سبب ان کی عوامی حمایت کم ہوئی ہے۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ مودی کی ریٹنگ میں سب سے زیادہ گراوٹ اپریل میں 22 پوائنٹ کے ساتھ درج ہوئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزیرِ اعظم نریندر مودی کی ریٹنگ میں یہ گراوٹ دہلی اور دوسرے شہروں میں اسپتالوں میں بیڈز، آکسیجن، ادویات اور دیگر لازمی اشیا کی کمی کی وجہ سے مریضوں کی ہلاکتوں میں اضافے کے دوران آئی۔
سروے رپورٹ کے مطابق ایک سال قبل جب کرونا کی پہلی لہر آئی تھی تب 89 فی صد افراد نے کہا تھا کہ حکومت نے وبا پر بہتر انداز میں قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ جب کہ کرونا کی دوسری لہر کے دوران اپریل کے آخر میں 59 فی صد افراد نے کہا کہ حکومت نے بہتر انداز میں اس بحران سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔
دوسری جانب حزبِ اختلاف کا الزام ہے کہ مودی حکومت کرونا وبا پر قابو پانے میں ناکام ہے ۔ جب کہ ماہرین اور سائنس دانوں کی جانب سے دوسری لہر کے انتباہ کے باوجود انہوں نے اس کی کوئی تیاری نہیں کی۔
نئی دہلی کی ایک سرکردہ سروے ایجنسی ’سینٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹی‘ (سی ایس ڈی ایس) سے وابستہ ہلال احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی سمجھ رکھنے والا ہر شخص یہ بات محسوس کر سکتا ہے کہ کرونا وبا کی دوسری لہر کے دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ان کے مطابق جس رپورٹ کا حوالہ دیا جا رہا ہے البتہ وہ یہ نہیں بتاتی کہ اس نے سروے کے لیے کیا طریقۂ کار اختیار کیا۔ اس وقت ملک میں لاک ڈاون ہے۔ ایسے میں ایجنسی نے کتنے لوگوں سے بات کی اور کیسے کی؟ یہ ایک سوال ہے۔ اس لیے اس کی روشنی میں کوئی نتیجہ نکالنا ٹھیک نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ ایجنسی نے مودی کی ریٹنگ 63 فی صد بتائی ہے جو ایک اچھی ریٹنگ مانی جا سکتی ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ مودی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن اس کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالنا کہ 2024 کے الیکشن پر اس کا اثر پڑے گا جلد بازی ہوگی۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ حکومت وبا پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ وہ کرونا پر توجہ دینے کے بجائے جارحانہ اور فرقہ وارانہ سیاست کرتی رہی ہے۔
بھارتی حکومت کا دعویٰ
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ وبا پر قابو پانے میں پوری سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔
حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں آکسیجن اور ادویات کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایسی وبا 100 برس میں ایک بار آتی ہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
علاوہ ازیں منگل کو حکومت نے کہا ہے کہ ملک کی صرف 1.8 فی صد آبادی ہی کرونا سے متاثر ہوئی ہے اور اب تک سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہونے کے باوجود بھی ہم وبا کے پھیلاؤ کو دو فی صد سے بھی کم آبادی تک روکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اس وقت ریاست تمل ناڈو، مہاراشٹرا، کرناٹک، کیرالہ اور راجستھان میں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
بدھ کو تمل ناڈو سے سب سے زیادہ کیسز سامنے آئے جب کہ شمال مشرقی ریاستوں میں بھی کیسز میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
پاکستان سے آکسیجن لینے کی درخواست مسترد
بھارت کی ریاست پنجاب بھی کرونا سے بری طرح متاثر ہے جہاں آکسیجن کی کمی برقرار ہے۔
ریاست پنجاب کی حکومت نے مرکزی حکومت سے پاکستان سے 'آکسیجن کوری ڈور' کی سہولت کے لیے درخواست کی تھی جسے حکومت نے مسترد کر دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ اور دیگر سیاست دانوں نے وزیرِ اعظم مودی سے کم از کم آٹھ مرتبہ پاکستان سے آکسیجن لینے کی درخواست کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امرتسر سے لاہور کا فاصلہ صرف 50 کلومیٹر ہے اور ہمیں وہاں سے آکسیجن منگوانی چاہیے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے 25 اپریل کو کرونا سے لڑنے میں بھارت کی مدد کرنے کی پیشکش کی تھی۔
دوسری جانب ایدھی کے فلاحی ادارے نے بھی بھارت کی مدد کے لیے طبی امداد، طبی عملے اور ایمبولینسز فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔
لیکن مودی حکومت نے پاکستان سے مدد لینے کی پیش کش مسترد کر دی تھی۔
امرتسر کے رکن پارلیمنٹ گورجیت سنگھ اوجلا نے قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ انکار پنجاب کے مریضوں کے لیے انتہائی ہلاکت خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ یہاں کسی بھی مریض کو یہ نہیں معلوم کہ اس کی سانس کی ڈور کب ٹوٹ جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس ضمن میں گورجیت سنگھ نے وزیرِ اعظم مودی کے نام 26 اور 27 اپریل اور دو اور پانچ مئی کو مکتوب لکھے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے انکار کے دس روز بعد بھی پنجاب میں آکسیجن کی سپلائی بحال نہیں ہوئی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت اس وقت چین اور دیگر اسلامی ممالک سے طبی امداد لے رہا ہے لیکن اگر ہمیں نام نہاد دشمن پاکستان سے مدد لینے میں شرم محسوس ہوتی ہے تو ہم چینی یا گیہوں کے عوض آکسیجن لے سکتے ہیں۔
اس حوالے سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان وجے چوتھی والا کا کہنا ہے کہ چوں کہ یہ ایک دو طرفہ معاملہ ہے اس لیے وہ اس پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے۔
ویکسین مراکز بند
دریں اثنا بھارت کی متعدد ریاستوں میں ویکسین لگانے کا عمل بھی جاری ہے جب کہ کئی ریاستوں نے ویکسین کی قلت کی وجہ سے ویکسی نیشن کے مراکز بند کر دیے گئے ہیں۔
ویکسین مراکز میں بالخصوص 14 سے 44 سال کی عمر کے لوگوں کے لیے ویکسین کم پڑ گئی ہے۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ریاستوں کے پاس ویکسین کی 1.94 کروڑ خوراکیں موجود ہیں۔
وزیرِ اعظم مودی نے منگل کو کہا کہ کرونا سے لڑنے کے لیے ویکسین ایک مؤثر ذریعہ ہے ہمیں اس سے متعلق تمام غلط فہمیاں دور کر لینی چاہیئں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ویکسین کی سپلائی میں اضافے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
کووی شیلڈ بنانے والے ادارے ’سیرم انسٹی ٹیوٹ‘ کے سربراہ ادار پونہ والا نے کہا ہے کہ ہم نے بھارت کے عوام کی قیمت پر دوسرے ملکوں کو ویکسین کی سپلائی نہیں کی ہے۔
حکومت کی کووڈ۔19 ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر وی کے پال کا کہنا ہے کہ دو سال سے 18 سال تک کی آبادی 10 سے 12 روز میں ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کا آغاز کیا جائے گا۔
ایک ہزار ڈاکٹروں کی موت
انڈین میڈیکل ایسو سی ایشن (آئی ایم اے) کے مطابق کرونا کی دوسری لہر کے دوران گزشتہ دو ماہ میں 269 ڈاکٹرز ہلاک ہوئے ہیں۔
آئی ایم اے کے مطابق سب سے زیادہ بہار اور اتر پردیش میں ڈاکٹر ہلاک ہوئے ہیں۔ بہار میں 78 اور اتر پردیش میں 73 ڈاکٹروں کی اموات ہوئی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب دارالحکومت دہلی میں کرونا کے سبب 28 ڈاکٹروں کی موت ہوئی ہے۔
آئی ایم اے کے مطابق گزشتہ سال کرونا کی پہلی لہر کے دوران 748 ڈاکٹروں کی موت ہوئی تھی جب کہ اب تک کرونا سے 1000 ڈاکٹر ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم رپورٹس کے مطابق یہ تعداد اور زیادہ ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ آئی ایم اے صرف اپنے ساڑھے تین لاکھ ارکان کا ریکارڈ رکھتی ہے جب کہ ملک میں 12 لاکھ ڈاکٹرز ہیں۔
تین سو صحافیوں کی موت
گزشتہ سال ڈاکٹر، صحت کے کارکن اور پولیس سمیت بڑی تعداد میں فرنٹ لائن ورکرز کی کرونا سے موت ہوئی تھی۔ تاہم صحافیوں کو فرنٹ لائن ورکر نہیں مانا جاتا۔ لیکن ان کی بھی کافی اموات ہوئی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اب تک کئی معروف اور سینئر صحافیوں سمیت 300 صحافی کرونا سے جنگ ہار چکے ہیں۔ اپریل 2021 میں اوسطاً تین صحافیوں کی یومیہ ہلاکت ہوئی ہے لیکن مئی کے مہینے میں یہ اوسط بڑھ کر چار ہو گئی ہے۔
دہلی کے ایک ادارے ’انسٹی ٹیوٹ آف پرسپشن اسٹڈیز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اپریل 2020 سے 16 مئی 2021 تک 238 صحافیوں کی جانیں گئی ہیں۔
ادارے کی ڈائریکٹر ڈاکٹر کوٹا نیلما نے ’آج تک ڈاٹ ان‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب تک 300 صحافی ہلاک ہوئے ہیں لیکن ہم صرف 238 کی ہی تصدیق کر سکے ہیں۔
’نیٹ ورک آف وومین ان میڈیا‘ نامی ایک دوسرے گروپ نے بھی کہا ہے کہ کرونا سے تقریباً 300 صحافیوں کی جانیں گئی ہیں۔
سنگاپور کی تردید
دریں اثنا سنگاپور نے دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ سنگاپور میں کرونا کی ایک نئی قسم پائی گئی ہے جو بچوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔ سنگاپور کی وزارتِ صحت کے مطابق اس بیان میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
کیجری وال نے منگل کے روز مرکزی حکومت سے اپیل کی تھی کہ سنگاپور میں وبا کی ایک نئی قسم پائی گئی ہے جو بچوں کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ لہٰذا سنگاپور سے پرواز بند کر دی جائے۔
سنگاپور کے ردِ عمل کے بعد بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ دہلی کے وزیرِ اعلیٰ پورے بھارت کی نمائندگی نہیں کرتے۔
ادھر وزارتِ خارجہ میں جوائنٹ سیکریٹری ارندم باگچی نے کہا کہ سنگاپور کی حکومت نے ہمارے ہائی کمشنر کو طلب کرکے دہلی کے وزیر اعلیٰ کے بیان پر سخت اعتراض کیا ہے۔
ہائی کمشنر نے واضح کیا کہ دہلی کے وزیرِ اعلیٰ کے پاس شہری ہوا بازی کی پالیسی کے بارے میں بولنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔