الیکشن کمیشن کو ایسی پالیسی اپنانا ہو گی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔۔۔
کراچی —
انتخابات سر پر آ گئے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی کی نئی حد بندیوں پر شہر کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم الیکشن کمیشن کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی۔
رواں ماہ کی 16تاریخ کو تحلیل ہونے والی اسمبلی میں گزشتہ سال جولائی میں حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر بنایا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس اہم ادارے پر تحفظات بھی سامنے آنے لگے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر طاہر القادری نے چاروں صوبائی الیکشن ممبران پر تحفظات کا اظہار کرکے الیکشن کمیشن کی تحلیل کا مطالبہ کر دیا۔ اس کی گونج ابھی فضاوٴں میں باقی ہی تھی کہ تحریک ِانصاف بھی ان کی ہم آواز ہو گئی۔
یہ مطالبہ الیکشن کمیشن پر اٹھنے والی پہلی آواز تھی تاہم اس کے رد ِعمل میں بڑی سیاسی جماعتوں کی اٹھنے والی گونج میں یہ مطالبہ دب گیا لیکن صورتحال گزشتہ دنوں اس وقت دلچسپ ہو گئی جب نئے کاغذات نامزدگی کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی حمایتی جماعتیں ہی اس کے خلاف ہو گئیں۔ حکومت کی جانب سے کھل کر تنقید بھی ہوتی رہی لیکن بعد میں معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔
مذکورہ دونوں معاملات تو کسی نہ کسی طرح تھوڑے عرصے میں حل ہو ہی گئے لیکن کراچی میں نئی حد بندیوں سے متعلق سپریم کورٹ کا حکم اکتوبر دو ہزار بارہ سے اس کیلئے بڑا امتحان ثابت ہوا۔ عملدرآمد شروع ہوا تو مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت سندھ کی 12 اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی اسمبلی کے باہر دھرنے اور احتجاج شروع کر دئیے۔ ان کا موقف تھا کہ حکم کے مطابق اس عمل میں فوج اور ایف سی کو شامل نہیں کیا جا رہا۔ اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر کے باہر بھی احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔
نئے کاغذات نامزدگی اور نگران سیٹ اپ سے متعلق مشاورت نے اگر چہ وقتی طور یہ معاملہ ٹھنڈا کر دیا لیکن جمعے کو یہ معاملہ اس وقت راکھ میں دبی جنگاری کی طرح دوبارہ بھڑک اٹھا جب الیکشن کمیشن نے کراچی میں قومی اسمبلی کے تین (این اے 239، این اے 250 اور این اے 254 ) اور صوبائی اسمبلی کے آٹھ حلقوں(پی ایس 89، پی ایس 112، پی ایس 113، پی ایس 114، پی ایس 115، پی ایس 116، پی ایس 118 اور پی ایس 124 ) کی حد بندیوں کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔
گزشتہ انتخابات میں این اے 239 اور پی ایس 89 پر پیپلزپارٹی جبکہ باقی تمام حلقوں میں ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہو ئے تھے۔
متحدہ قومی موومنٹ کا عدالت سے رجوع کا فیصلہ
نوٹی فکیشن کے اجراء کے فوری بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اس اقدام پر الیکشن کمیشن کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کر دیا۔ ہفتے کو رابطہ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں الطاف حسین نے نہ صرف الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا بلکہ اسے ایم کیو ایم کا ووٹ بینک توڑنے کی سازش بھی قرار دیا اور واضح کیا کہ وہ اس عمل کے خلاف بھر پور احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔
ایم کیوایم کا احتجاج
ہفتے کو ہی صوبائی الیکشن کمیشن کے باہر ایم کیو ایم کے کارکنان کی بڑی تعداد نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ کراچی کیساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے کہا کہ تھا کہ حلقوں کی حدبندی کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق ِرائے ہونا ضروری ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما بابر غوری اور عادل صدیقی نے صوبائی الیکشن کمیشن کے اراکین سے ملاقات کی اور انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
مزید مشکلات
مبصرین اس ماحول کو الیکشن کمیشن کیلئے بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں تاہم ان کا خیال ہے کہ آنے والے چند روز میں الیکشن کمیشن کیلئے مزید مشکلات پیدا ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ اس حوالے سے نگران وزیراعظم کا انتخاب سب سے اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ سیاستدانوں نے نگران وزیراعظم کے چناؤ کی ذمے داری الیکشن کمیشن کو سونپ دی ہے اور توقع ہے کہ اتوار کو الیکشن کمیشن نیا نگران وزیراعظم تلاش کر لے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے دونوں مرحلوں میں ناکامی کے بعد جب نگران وزیراعظم کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس آیا تو سابقہ حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن کو بھی خط ارسال کیا جس میں اپوزیشن کے پیش کیے گئے دونوں ناموں پر تحفظات ظاہر کیے گئے اور درخواست کی گئی کہ ان کے تحفظات کو مد ِنظر رکھا جائے۔
اس تناظر میں یہ سوالات بھی سر اٹھانے لگے ہیں کہ کہیں نگران وزیراعظم کے چناؤ کے بعد فریقین الیکشن کمیشن کی طرف انگلیاں نہ اٹھالیں؟ کیونکہ الیکشن کمیشن نے چار ناموں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے، وہ یا تو حکومت کا ہو گا یا اپوزیشن کا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بظاہر جہاں ملک میں امن وامان کی صورتحال اور دیگر حالات پہلے ہی عام انتخابات کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا تاثر دے رہے ہیں، اس صورتحال میں الیکشن کمیشن کو ایسی پالیسی اپنانا ہو گی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے لیکن یہ سب آگ کا دریا عبور کرنے سے کم نہیں ہوگا۔
رواں ماہ کی 16تاریخ کو تحلیل ہونے والی اسمبلی میں گزشتہ سال جولائی میں حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر فخر الدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر بنایا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس اہم ادارے پر تحفظات بھی سامنے آنے لگے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر طاہر القادری نے چاروں صوبائی الیکشن ممبران پر تحفظات کا اظہار کرکے الیکشن کمیشن کی تحلیل کا مطالبہ کر دیا۔ اس کی گونج ابھی فضاوٴں میں باقی ہی تھی کہ تحریک ِانصاف بھی ان کی ہم آواز ہو گئی۔
یہ مطالبہ الیکشن کمیشن پر اٹھنے والی پہلی آواز تھی تاہم اس کے رد ِعمل میں بڑی سیاسی جماعتوں کی اٹھنے والی گونج میں یہ مطالبہ دب گیا لیکن صورتحال گزشتہ دنوں اس وقت دلچسپ ہو گئی جب نئے کاغذات نامزدگی کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی حمایتی جماعتیں ہی اس کے خلاف ہو گئیں۔ حکومت کی جانب سے کھل کر تنقید بھی ہوتی رہی لیکن بعد میں معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔
مذکورہ دونوں معاملات تو کسی نہ کسی طرح تھوڑے عرصے میں حل ہو ہی گئے لیکن کراچی میں نئی حد بندیوں سے متعلق سپریم کورٹ کا حکم اکتوبر دو ہزار بارہ سے اس کیلئے بڑا امتحان ثابت ہوا۔ عملدرآمد شروع ہوا تو مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت سندھ کی 12 اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی اسمبلی کے باہر دھرنے اور احتجاج شروع کر دئیے۔ ان کا موقف تھا کہ حکم کے مطابق اس عمل میں فوج اور ایف سی کو شامل نہیں کیا جا رہا۔ اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے مرکزی دفتر کے باہر بھی احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔
نئے کاغذات نامزدگی اور نگران سیٹ اپ سے متعلق مشاورت نے اگر چہ وقتی طور یہ معاملہ ٹھنڈا کر دیا لیکن جمعے کو یہ معاملہ اس وقت راکھ میں دبی جنگاری کی طرح دوبارہ بھڑک اٹھا جب الیکشن کمیشن نے کراچی میں قومی اسمبلی کے تین (این اے 239، این اے 250 اور این اے 254 ) اور صوبائی اسمبلی کے آٹھ حلقوں(پی ایس 89، پی ایس 112، پی ایس 113، پی ایس 114، پی ایس 115، پی ایس 116، پی ایس 118 اور پی ایس 124 ) کی حد بندیوں کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔
گزشتہ انتخابات میں این اے 239 اور پی ایس 89 پر پیپلزپارٹی جبکہ باقی تمام حلقوں میں ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہو ئے تھے۔
متحدہ قومی موومنٹ کا عدالت سے رجوع کا فیصلہ
نوٹی فکیشن کے اجراء کے فوری بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اس اقدام پر الیکشن کمیشن کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کر دیا۔ ہفتے کو رابطہ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں الطاف حسین نے نہ صرف الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا بلکہ اسے ایم کیو ایم کا ووٹ بینک توڑنے کی سازش بھی قرار دیا اور واضح کیا کہ وہ اس عمل کے خلاف بھر پور احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔
ایم کیوایم کا احتجاج
ہفتے کو ہی صوبائی الیکشن کمیشن کے باہر ایم کیو ایم کے کارکنان کی بڑی تعداد نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ کراچی کیساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے کہا کہ تھا کہ حلقوں کی حدبندی کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق ِرائے ہونا ضروری ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما بابر غوری اور عادل صدیقی نے صوبائی الیکشن کمیشن کے اراکین سے ملاقات کی اور انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
مزید مشکلات
مبصرین اس ماحول کو الیکشن کمیشن کیلئے بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں تاہم ان کا خیال ہے کہ آنے والے چند روز میں الیکشن کمیشن کیلئے مزید مشکلات پیدا ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ اس حوالے سے نگران وزیراعظم کا انتخاب سب سے اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ سیاستدانوں نے نگران وزیراعظم کے چناؤ کی ذمے داری الیکشن کمیشن کو سونپ دی ہے اور توقع ہے کہ اتوار کو الیکشن کمیشن نیا نگران وزیراعظم تلاش کر لے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے دونوں مرحلوں میں ناکامی کے بعد جب نگران وزیراعظم کا معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس آیا تو سابقہ حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے الیکشن کمیشن کو بھی خط ارسال کیا جس میں اپوزیشن کے پیش کیے گئے دونوں ناموں پر تحفظات ظاہر کیے گئے اور درخواست کی گئی کہ ان کے تحفظات کو مد ِنظر رکھا جائے۔
اس تناظر میں یہ سوالات بھی سر اٹھانے لگے ہیں کہ کہیں نگران وزیراعظم کے چناؤ کے بعد فریقین الیکشن کمیشن کی طرف انگلیاں نہ اٹھالیں؟ کیونکہ الیکشن کمیشن نے چار ناموں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے، وہ یا تو حکومت کا ہو گا یا اپوزیشن کا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بظاہر جہاں ملک میں امن وامان کی صورتحال اور دیگر حالات پہلے ہی عام انتخابات کی راہ میں بڑی رکاوٹ کا تاثر دے رہے ہیں، اس صورتحال میں الیکشن کمیشن کو ایسی پالیسی اپنانا ہو گی کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے لیکن یہ سب آگ کا دریا عبور کرنے سے کم نہیں ہوگا۔