آرٹیکل 186کے تحت صدر ِ پاکستان کی طرف سے عدالتِ عظمیٰ کو بھیجے گئے ریفرنس کے بارے میں معروف وکیل اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بہتر ہوتا اگر اِسے پہلے پارلیمان کے سامنے لایا جاتا اور ساری سیاسی جماعتوں کی طرف سےاِس معاملے پرایک قرارداد منظور کی جاتی۔
’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں اطہر من اللہ نے کہا کہ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ ’یہ ملک کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ ہے۔‘ اِس ضمن میں اُنھوں نے جسٹس (ر) نسیم حسن شاہ کی کتاب اور اُس کے بعد اُن کے بیانات کا حوالہ دیا، جو کہ خود اُس بینچ کا حصہ تھے جس نے بھٹو صاحب کا کیس سنا تھا۔ پھر جسٹس (ر) دوراب پٹیل کی کتاب کا حوالہ دیا۔
اُن کے الفاظ میں ’اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ بدنیتی (کی بنیاد پر)اور صرف چند جرنیلوں کو خوش کرنے کے لیے چار ججوں نے یہ فیصلہ دیا تھا۔ کوئی بھی عدالت اِسےنظیر نہیں مانتی۔ نہ ہی کوئی وکیل اِسے نظیر مانتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ اِس فیصلے کی قانونی حیثیت کو کوئی بھی نہیں مانتا۔‘
اطہر من اللہ کی رائے میں موجودہ صورت میں ریفرنس عدالت کو بھیج کر اُن کے بقول، بھٹو صاحب جیسے شخص کے نام کومتنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
جب جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی سے سوال کیا گیا کہ 31سال کے بعد اِس ریفرنس کو عدالت عظمیٰ کو بھیجنے پر اُن کی کیا رائے ہے، تو اُنھوں نے کہا کہ کیونکہ ریفرنس آرٹیکل 186کے تحت ہے اِس لیے سپریم کورٹ کے لیےکسی فردِ واحد کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہوگا۔ اُن کے بقول، ایسے حالات ہوں کی قانون کی تشریح کاکوئی معاملہ، صورتِ حال ہو جس سے ابہام پیدا ہوتا ہو، اُس پر تو صدر کو حق حاصل ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے رائے طلب کر سکتے ہیں۔
جسٹس (ر) سعید الزماں نے کہا کہ جہاں تک اِس فیصلے کا تعلق ہے یہ تو عدالتی فیصلہ تھا۔ إِس میں ایک نظرِ ثانی کی پٹیشن دائر ہوئی تھی جس کو اُس وقت مسترد کیا گیا تھا۔ اِس لیے، اُن کے بقول، ریفریس میں قانونی طور پر کوئی مزید گنجائش نہیں ہے۔
تفصیل کے لیے آڈیورپورٹ سنیئے: