مہنگائی میں کمی کے لیے حکومت کا ریلیف پیکج، کتنا فائدہ مند؟

(فائل فوٹو)

پاکستان کی حکومت نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔ جس کے تحت ملک بھر میں موجود یوٹیلٹی اسٹورز کو آئندہ پانچ ماہ تک ہر ماہ دو ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔

وفاقی حکومت کی طرف سے عوام کو سبسڈی دینے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پاکستان ادارہ برائے شماریات کی جنوری 2020 کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح 14.6 فی صد ہے۔ کھانے پینے کی ایسی اشیا (جو کہ جلدی خراب ہو جاتی ہیں) ان کی قیمتوں میں پچھلے 12 ماہ کے دوران 78 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے گزشتہ روز بنیادی اشیا خورونوش کی قیمتوں میں کمی سے متعلق ٹوئٹ اور حکومت کی جانب سے سبسڈی کے اعلان کے باوجود بدھ کو یوٹیلٹی اسٹورز میں گھی اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کی شکایات عام رہیں۔

حکومت کے اس ریلیف پیکج کے اعلان پر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوامی سطح پر مہنگائی کے خلاف بڑھتی ہوئی بے چینی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ البتہ معاشی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے عوام کو دیے جانے والے اس ریلیف سے 0.5 فی صد پاکستانی ہی استفادہ کر سکیں گے۔

ریلیف پیکیج کی وجوہات

صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ آج یوٹیلٹی اسٹورز پر بڑھنے والی قیمتوں کے بعد وزیر اعظم کے ریلیف پیکیج کو 'تکلیف پیکیج' کہا جارہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گھی کی قیمت میں پانچ روپے اور چینی کی قیمت میں دو روپے فی کلو اضافے کا مطلب ہے کہ جو وزیر اعظم کہہ رہے ہیں۔ اس پر عمل نہیں ہو رہا اور اس طرح گورننس کے مسائل نظر آ رہے ہیں۔

حکومت کی طرف سے اس ریلیف پیکیج کی وجوہات کے بارے میں عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ یہ اعلان لوگوں کو یقین دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ حکومت نئے یوٹیلٹی اسٹورز کھول رہی ہے۔ لیکن انہیں یہ بھی صرف دعویٰ ہی نظر آ رہا ہے۔

کیا سبسڈی سے مہنگائی کم ہو گی؟

ماہر معاشیات اور سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ اگر 21 کروڑ پاکستانی ہوں تو دو ارب ماہانہ سبسڈی کے حساب سے ہر پاکستانی کے حصے میں پانچ روپے ماہانہ آتے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیراعظم نے منگل کو عوام کو بذریعہ یوٹیلٹی اسٹورز ریلیف دینے کا اعلان کیا اور آج سے یوٹیلٹی اسٹورز نے گھی اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

فرخ سلیم کے بقول آٹے اور چینی کی قیمتوں میں 25 سے 30 روپے اضافہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔ لہذٰا وزیر اعظم کی طرف سے دیے جانے والے ریلیف کا مہنگائی کم کرنے میں کردار بالکل نا ہونے کے برابر ہو گا۔

معاشی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور معاشی تجزیہ کار خرم حسین کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے سبسڈی دیے جانے سے مہنگائی میں کچھ تو کمی آئے گی۔ کیونکہ اشیا خورونوش کو سبسڈی والی قیمتوں پر فروخت کیا جائے تو اس سے ان کی رسد میں اضافہ ہو گا۔

ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ اس وقت پورے پاکستان میں 5900 یوٹیلٹی اسٹورز ہیں۔ جن تک محض 0.5 فی صد پاکستانیوں کی رسائی ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیا اتنی غیر معیاری ہوتی ہیں کہ بہت سارے لوگ وہاں سے اشیا خریدنا پسند بھی نہیں کرتے۔

خرم حسین کا کہنا ہے کہ حکومت نے مزید یوٹیلٹی اسٹورز کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ لوگ ان اسٹورز سے خریداری کر سکیں گے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سبسڈی دیے جانے سے اشیا خورونوش کی رسد میں اضافہ ہو گا۔ جس سے یوٹیلٹی اسٹورز کے علاوہ دوسری مارکیٹس میں بھی قیمتوں پر اثر پڑے گا۔

حکومت کی طرف سے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں تواتر کے ساتھ اضافے اور حکومت کی طرف سے دی جانے والی معمولی سبسڈی کے موازنے سے متعلق سوال پر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ اس پر حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

فرخ سلیم کے بقول پاکستان میں دو طرح کی مہنگائی ہوتی ہے۔ ایک تو اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ اور دوسرا بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔

اُن کے بقول پہلی طرح کی مہنگائی کنٹرول کرنے کا اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ لیکن حکومت اس میں ناکام ہے۔ البتہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں سے ہے۔ لہذٰا حکومت کو نا چاہتے ہوئے بھی ایسا کرنا پڑتا ہے۔

خرم حسین کا کہنا ہے کہ پچھلے سال نومبر میں یوٹیلٹی اسٹورز کو سات ارب کی سبسڈی دی گئی تھی اور اب 10 ارب کی سبسڈی دی گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر آپ دوسری طرف دیکھیں تو ایکسپورٹرز کو مختلف طریقوں سے تین سو ارب کی سبسڈی دی جائے گی۔

لہذٰا حکومت کی طرف سے یہ فرق نظر آرہا ہے کہ ایک طرف تو امیر ترین ایکسپورٹرز ہیں۔ جن کو حکومت کی طرف سے تین سو ارب کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ کروڑوں کی تعداد میں موجود غریب عوام کو 17 ارب کی سبسڈی دی گئی ہے۔

قیمتوں میں کمی کیسے ممکن ہے؟

سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی طرح آٹے اور چینی کے کاروبار میں پڑی ہوئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو آٹے اور چینی کے کاروبار سے مکمل طور پر لاتعلق ہوجانا چاہیے اور درآمدی ڈیوٹیوں کو ختم کر دینا چاہیے۔ تاکہ جب آٹے اور چینی کی قلت پیدا ہو تو درآمد کنندگان خود ہی چینی درآمد کر لیں۔

کیا حکومت سبسڈی دینے کی پوزیشن میں ہے؟

فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ سبسڈی تب دی جاتی ہے جب حکومت کے پاس خزانے میں اضافی پیسہ پڑا ہو۔ لیکن پاکستانی بجٹ کی ایک ایک پائی اس وقت مختص ہو چکی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 10 ارب کی مذکورہ سبسڈی ان پیسوں سے دی جارہی ہے جو کہ 'احساس پروگرام' کے لیے مختص کیے گئے تھے۔

خرم حسین سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستانی خزانے سے 10 ارب نکالنا مشکل ضرور ہو گا۔ لیکن اگر وزارتِ خزانہ کو احکامات ملیں تو کسی اور مد سے یہ رقم مختص کر سکتے ہیں۔