نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد موثر بنانے پر زور

قومی مصالحتی کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی (فائل)

یہ مطالبہ پاکستان علماء کونسل کی طرف سے اسلام آباد میں 'امہ کے اتحاد' سے متعلق منعقد ہونے والی ایک کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک اعلامیہ میں کیا گیا ہے

پاکستان میں ایک مذہبی تنظیم نے انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام کے نام پر دہشت گردی و انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

یہ مطالبہ پاکستان علماء کونسل کی طرف سے اسلام آباد میں 'امہ کے اتحاد' سے متعلق منعقد ہونے والی ایک کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک اعلامیہ میں کیا گیا ہے۔

اس موقع پر کانفرنس نے ماہ محرم میں امن و امان قائم کرنے کے لیے 10 نکاتی ضابطہٴ اخلاق بھی جاری کیا، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے قیادت پر زور دیا گیا کہ وہ فرقہ وارنہ تشدد، دہشت گردی و انتہا پسندی میں ملوث عناصر سے خود کو الگ کر لیں۔

پاکستان علماء کونسل نے ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینے لیے ملک میں قومی مصالحتی کونسلز قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں اس سے قبل بھی علما کی نمائندہ تنظیمیں دہشت گردی و انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہوئے خود کش حملوں کو حرام قرار دے چکی ہیں۔

سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اور پاکستان کے سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نوارنی نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوششیں اسی وقت مؤثر ہو سکتی ہیں جب شدت پسند مذہبی گروہ بھی انہیں تسلیم کریں۔

تسنیم نورانی کے بقول، "اگر مختلف مکاتب فکر کے علماء بھی اس سوچ کو آگے بڑھائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اگر شدت پسند عناصر بھی ان تنظیموں کی بات سنیں تو ایسے بیانات مؤثر ہو سکتے ہیں۔"

علما کونسل کے ضابطہٴ اخلاق میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی بھی مسلم یا غیر مسلم شخص کے قتل کا فتویٰ جاری نہیں کیا جا سکتا اور پاکستان میں بسنے والے تمام افراد ملک کے آئین کے تحت اپنی زندگی بسرنے کا حق کا حق رکھتے ہیں۔

تسنیم نوارنی نے ایسے بیانات کو ایک اچھی کاوش قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ، "کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس قسم کے بیانات فائدہ مند نہیں ہیں۔ میرا نقطہٴ نظر یہ ہے کہ یہ اچھی چیز ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کس حد تک عمل ہو سکتا ہے۔ لیکن، بعض شدت پسند گروپ ایسی باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتے اس لیے بلآخر ان کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف کارروائی کرنی پڑتی ہے۔"

حکومت نے دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر شدت پسندوں کے مہلک حملے کے بعد انسداد دہشت گردی کا 20 نکاتی قومی لائحہ عمل وضح کیا تھا۔

حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اور سکیورٹی کے اداروں کی طرف سے ملک بھر میں کی جانے والی کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔

تاہم، بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو پوری طرح ختم کرنے کے لیے قومی لائحہٴ عمل کے تمام نکات پر مؤثر اور پائیدادر عمل درآمد کو یقنی بنانا ضروری ہے۔