بھارت اور پاکستان کے 1952 میں لکھنؤ میں ہونے والے میچ میں پاکستانی بلے باز نذر 515 منٹ تک بھارتی گیند بازوں کے سامنے وکٹ پر جمے رہے اور اپنی ٹیم کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی پہلی سینچری کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔یہی نہیں وہ کسی بھی ایک اننگرز میں ناٹ آؤٹ رہنے والے پہلے پاکستانی بلے باز تھے۔ لیکن جس طرح نذر محمد کے کریئر کا آغاز تہلکہ خیز تھا اس اختتام بھی ڈرامائی انداز میں ہوا۔
نذر محمد نہ صرف ایک اننگز میں بیٹ کیری کرنے والے یعنی اوپننگ کرتےہوئے پوری اننگز میں آؤٹ نہ ہونے والے پہلے پاکستانی بلے باز تھے بلکہ میچ کے پانچوں دن گراؤنڈ پر موجود رہنے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی کا اعزاز بھی انہیں حاصل تھا۔
نذر محمد کا فرسٹ کلاس کریئر 45 میچز پر محیط تھا جس میں انہوں نے 2739 رنز اسکور کرنے کے ساتھ ساتھ 40 کیچز بھی پکڑے، وہ ایک اچھے بلے باز ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ فیلڈر بھی تھے اور صرف پانچ ٹیسٹ میں سات کیچ تھام کر انہوں نے اس کا ثبوت دیا۔
بارہ جولائی 1996 کو انتقال کرنے والے نذر محمد کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ ان کے بیٹے مدثر نذر نے ایک ٹیسٹ میچ میں اوپننگ کرتے ہوئے بیٹ کیری کیا اور یوں دونوں باپ بیٹے ایسا کرنے والی دنیائے کرکٹ کی پہلی جوڑی بن گئے۔
نذر محمد کو دورٔ بھارت کے دوران بھارتی کمنٹیٹرز نے ان کی فیلڈنگ کی وجہ سے 'پرنس آف گلی 'کا بھی خطاب دیا تھا لیکن ان کی زندگی میں ملکۂ ترنم نورجہاں کے ساتھ اسکینڈل ایک ایسا موڑ ثابت ہوا جس کی وجہ سے نہ صرف نورجہاں کی اپنے شوہر ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے علیحدگی ہو گئی بلکہ نذر محمد کا کریئر بھی اس اسکینڈل کی نذر ہو گیا۔
کرکٹ کی بائبل کا درجہ رکھنے والے جریدے 'وزڈن' کے بقول نذر محمد کا کریئر ایک نجی حادثے کی وجہ سے ختم ہواجس میں ان کا بازو زخمی ہوگیا تھا، البتہ اس نجی حادثے کے کئی پہلو گزشتہ50 سالوں میں منظر عام پر آچکے ہیں۔
ایک طرف ملکہ ترنم نورجہاں نے اپنے انٹرویوز میں نذر محمد سے جذباتی لگاؤ کا اقرار کیا تو دوسری جانب ان کے سابق شوہر شوکت حسین رضوی نے اس پر اپنا موقف پیش کیا۔ جب کہ اپنے انتقال سے پانچ سال قبل نذر محمد نے ایک انٹرویو میں نورجہاں سے اپنے افئیر کے بارے میں کئی انکشافات کیے۔
لیکن وہ واقعہ تھا کیا جس کی وجہ سے ایک نوجوان کرکٹر کا کریئر اور ایک معروف اداکارہ اور ایک فلمساز کی شادی ختم ہوئی؟ اس بارے میں نوے کی دہائی میں لکھی گئی کرکٹ کی کتاب 'پرائڈ اینڈ پیشن' میں مصنف عمر نعمان لکھتے ہیں کہ نورجہاں کے شوہر کی جلد واپسی پر ان کے عتاب سے بچنے کے لیے ان کے ساتھ موجود نذر محمد نے چھلانگ لگا کر دیوار پھلانگنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے وہ ایسا زخمی ہوئے کہ دوبارہ کرکٹ نہ کھیل سکے۔
ایک واقعہ تین کہانیاں
اس واقعے کے تینوں کرداروں کے بیان سے لگتا ہے جیسے یہ ایک نہیں، تین مختلف واقعات تھے۔
صحافی وسیم اکبر نے 70 کی دہائی میں ہفت روزہ 'پیمان ' کے لیے ملکہ ترنم نورجہاں کے متعدد انٹرویو شائع کیے جس میں انہوں نے اپنی نجی زندگی پر تفصیل سے بات کی تھی۔
ایک ایسے ہی انٹرویو میں انہوں نے اقرار کیا کہ نذر محمد سے ان کا جذباتی لگاؤ تھا لیکن وہ اس لیے نہیں کیوں کہ وہ ایک مشہور کرکٹر تھے بلکہ اس لیے کیوں کہ وہ ایک گم نا م گلوکار تھے اور ان کی زندگی میں آنے والے پہلے مرد بھی۔
نورجہاں کے بقول نذر محمد سے ان کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ بہت چھوٹی تھیں اور ان کے بڑے بھائی موسیقار فیروز نظامی سے موسیقی سیکھنے جاتی تھیں۔ ان کے بقول پہلی مرتبہ دونوں کا آمنا سامنا ناخوش گوار انداز میں ہوا۔ موسیقی سیکھتے ہوئے ایک بار نذر محمد نے گھور کر دیکھا تو میڈم نے انہیں ڈانٹ دیا لیکن جب انہیں پتا چلا کہ وہ خود بھی گانا گاتے ہیں اور ریڈیو پر ان کی غزلیں نشر ہوچکی ہیں تو دونوں میں دوستی ہو گئی۔
میڈم نے اس انٹرویو میں بتایا کہ بات شادی تک پہنچ گئی تھی لیکن جب نذر محمد کے گھر والے نہ مانے تو انہوں نے شوکت حسین رضوی سے شادی کرکے نذر محمد سے قطع تعلق کرلیا۔
میڈم نے اپنے پہلے شوہر پر یہاں الزام لگایا کہ شادی کے کچھ عرصے بعد وہ خود تو اداکارہ یاسمین، اور فلم ایکسٹرا نیلم سمیت کئی ایکٹریس سے ملتے تھے، لیکن نذرمحمد سے ملاقات پر انہوں نے ہنگامہ کھڑ ا کر دیا۔
میڈم نور جہاں اور نذر محمد کی یہ ملاقات بھی ایک معما ہے۔ اس ملاقات میں شوکت رضوی کی انٹری کی وجہ سے نذر محمد کو چھت سے چھلانگ مارنا پڑی تھی اور ان کا بازو ٹوٹ گیا تھا لیکن یہ ملاقات کب کہاں اور کیسے ہوئی؟ اس پر تینوں ہی کرداروں کا موقف الگ الگ ہے۔
اپنے انٹرویو میں نورجہاں نے بتایا تھا کہ ان کی نذر محمد سے ملاقات ان کے گھر پر نہیں بلکہ کسی اور جگہ ہوئی تھی۔ وہ صرف اس لیے نذر محمد سے ملنے کے لیے گئی تھیں کیوں کہ ان کا اپنے شوہر سے کسی اداکارہ کی وجہ سے جھگڑا ہوا تھا۔ جب شوکت حسین رضوی نے ان دونوں کو ساتھ دیکھا تو اس وقت نذر محمد انہیں دلاسہ دے رہے تھے۔
نور جہاں کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر نے ان کے گھر والوں کو کچھ روز قبل دھمکی دی تھی کہ اگر نذر کو نورجہاں کے ساتھ دیکھا تو گولی ماردیں گے۔
بقول نورجہاں، ان کے شوہر جس وقت اس گھر میں داخل ہوئے جہاں نذر محمد ان سے ملنے آئے تھے تو ان کے ہاتھ میں ایک پستول تھا جسے دیکھ کر نذر محمد گھبرا گئے اور جان بچانے کے لیے کھڑکی سے کود گئے۔
ملکہ ترنم نے یہ بھی کہا کہ وہ بیگانے گھر میں شور مچانے کے بجائے خاموش رہیں اور اپنے گھر چلی گئیں جس کے بعد ان کی نذر محمد سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی البتہ انہیں بعد میں پتا چلا کہ آٹھ نو فٹ کی بلندی سے گرنے کی وجہ سے نذر کا بازو ناکارہ ہوگیا تھا۔
'اگر میرے پاس بندوق ہوتی تو دونوں کو گولی ماردیتا'
جب میڈم نورجہاں کے انٹرویوز کے بارے میں ان کے پہلے شوہر اور معروف فلمساز شوکت حسین رضوی کو پتا چلا تو انہوں نے صحافی منیر اے منیر کی مدد سے کتاب 'نورجہاں اور میں' لکھی جس میں انہوں نے اپنی طلاق کے 27 سال بعد ان رازوں سے پردہ اٹھایا جن کا ایک رخ میڈم نورجہاں اپنے انٹرویوز کے ذریعے دکھا چکی تھیں۔
اس کتاب میں شوکت حسین رضوی نے اپنے اوپر لگے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ نذر محمد اور نورجہاں کے معاشقے کا اتنا چرچہ تھا کہ ان کے ڈرائیور امیر حسن بھی کہنے لگے تھے کہ اس سے بہت بدنامی ہو رہی ہے۔
شوکت حسین رضوی کے بقول جس دن وہ لاہور کے اسلامیہ پارک کے قریب اس گھر میں پہنچے جہاں نذر محمد اور نورجہاں برآمدے میں پلنگ پر اکٹھے لیٹے تھے تو ان کے پاس پستول نہیں تھی، اگر ہوتی تو وہ دونوں کو گولی مار دیتے۔
ان کے مطابق نذر نے گھبرا کر 25 فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگا دی اور گرنے کے بعد نہ صرف اس کا بازو ٹوٹ گیا بلکہ وہ بے ہوش بھی ہو گئے۔
شوکت حسین رضوی کا کہنا تھا کہ نورجہاں نے خوب شور مچایا اور انہیں بہت باتیں سنائیں اور کئی سنگین الزامات لگائے۔ لیکن شوکت رضوی کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ تھی کہ نور جہاں نے وہاں نذر سے محبت کا اقرار کیا تھا۔
اپنی اس کتاب میں شوکت رضوی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ نذر ایک بڑا پلیئر تھا، اپنی موت آپ مرگیا اور نورجہاں نے اس کے کریئر کو ختم کردیا۔
’عاشق نہیں معشوق ‘
اس واقعے کے سب سے اہم کردار نذر محمد عمر بھر نورجہاں سے تعلق کے بارے میں خاموش رہے تاہم عمر کے آخری حصے میں انہوں نے ایک صحافی ابن یونس کو ایک انٹرویو میں اس واقعے کی کچھ تفصیلات بتائیں جو طفیل اختر کی کتاب 'نورجہاں فتور جہاں' میں شامل ہے۔
اس انٹرویو میں انہوں نے اقرار کیا کہ نورجہاں سے ان کی ملاقات اپنے بڑے بھائی فیروز نظامی کی وجہ سے ہوئی جن کے پاس وہ ریہرسل کرنے آتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نورجہاں ان پر قومی ٹیم کے کرکٹر ہونے کی وجہ سے فریفتہ نہیں ہوئی تھیں بلکہ ان کی مردانہ وجاہت، پراثر شخصیت اور راگ راگنیوں کے علم کی وجہ سے انہیں پسند کرتی تھیں۔
نذر محمد کا کہنا تھا کہ جب وہ نورجہاں سے ملتے تھے تو وہ شوکت حسین رضوی کی بیوی تھیں۔ ایک دن وہ دونوں ان کی غیرموجودگی میں نورجہاں کے اسلامیہ پارک کے گھر میں بیٹھے گفتگو میں مشغول تھے کہ اچانک شوکت حسین رضوی آ گئے جس کی وجہ سے انہیں موقعے سے فرار ہونا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں جو دیوار نظر آئی وہ اس پر چڑھ کر دوسری طرف نیچے چھلانگ لگانا چاہ رہے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ بازو کے بل زمین پر گرے جس سے ان کا بازو ناکارہ ہو گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے نورجہاں کے عشق میں بازو کی قربانی کے ساتھ ساتھ اپنا ٹیسٹ کریئر بھی ختم کرلیا، اور اس واقعہ کو بہانہ بناکر شوکت حسین رضوی نے نورجہاں کو طلاق دے دی۔
SEE ALSO: ’گائے گی دنیا گیت میرے‘: ملکۂ ترنم نور جہاں کے فلمی گیت، ہر نغمہ ایک کہانینذر محمد نے یہاں الزام لگایا کہ جس وقت یہ حادثہ ہوا تو شوکت حسین رضوی اور اداکارہ یاسمین کا عشق عروج پر تھا اور وہ نورجہاں سے جان چھڑانے کا بہانہ تلاش کررہے تھے۔
ان کے بقول اگر وہ کنوارے ہوتے تو شاید نورجہاں سے شادی کرلیتے لیکن اپنے بچوں کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکے اور ان سے مایوس ہوکر ہی نورجہاں نے اداکار اعجاز سے شادی کی۔
نذر محمد کا کہنا تھا کہ جب لوگ مجھے کہتے ہیں کہ یہ دیکھو نورجہاں کا عاشق ہے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ میں نورجہاں کا عاشق نہیں، معشوق ہوں۔