رسائی کے لنکس

پب جی لو اسٹوری: کیا سیما کو بھارت میں رہنے کی اجازت مل سکتی ہے؟


پاکستانی خاتون سیما غلام حیدر گزشتہ کئی روز سے بھارتی میڈیا کی سرخیوں میں ہیں اور تمام میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کے انٹرویوز چلائے جا رہے ہیں۔

27 سالہ سیما نے ہندو مذہب اپنا کر بھارتی نوجوان سچن مینا سے شادی کر لی ہے۔ بھارتی میڈیا پر اسے لو اسٹوری اور ایک انسانی معاملے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

سیما حیدر رواں برس کراچی سے دبئی گئیں اور پھر وہاں سے نیپال کے دار الحکومت کٹھمنڈو پہنچیں۔ نیپال کے شہر پوکھرا سے وہ بذریعہ بس بھارت میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئیں اور ایک 22 سالہ نوجوان سچن مینا کے گھر رہنے لگیں۔

سیما کے پاکستان سے نکلنے اور بھارت میں آنے کے بارے میں الگ الگ تاریخیں سامنے آ رہی ہیں۔ البتہ پولیس کے مطابق وہ بھارت میں 15 سے 20 مئی کے درمیان داخل ہوئی تھیں۔

گریٹر نوئڈا کی پولیس نے بھارت میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کے الزام میں سیما کو چار جولائی کو گرفتار کرکے ایک مقامی عدالت میں پیش کیا جس نے انہیں 14 روز کی عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا۔ ان کے اس غیر قانونی عمل میں اعانت کے الزام میں سچن اور ان کے والد نیترپال سنگھ کو بھی گرفتار کیا گیا۔

عدالت نے سیما کو چھ جولائی کو مشروط ضمانت دی اور حکم دیا کہ جب تک کیس زیرِ سماعت ہے وہ اپنی رہائش تبدیل نہیں کر سکتی جس کے بعد وہ آٹھ جولائی کو جیل سے باہر آگئیں۔

سیما حیدر پاکستان کے صوبے سندھ کی رہائشی ہیں۔ 2014 میں ان کی شادی جیکب آباد کے غلام حیدر نامی شخص سے ہوئی تھی جس سے ان کے چار بچے ہیں اور یہ جوڑا کراچی میں مقیم تھا۔

غلام حیدر 2019 میں مزدوری کرنے سعودی عرب چلے گئے تھے جن کی غیر موجودگی میں سیما سوشل میڈیا گیمنگ پلیٹ فارم پر مصروف ہو گئیں جہاں ان کا تعارف بھارت کے سچن مینا سے ہوا۔ رفتہ رفتہ دونوں میں قربت بڑھنے لگی جو ان دونوں کے مطابق بالآخر محبت میں تبدیل ہو گئی۔

سیما اور سچن کے انٹرویوز کے مطابق دونوں نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں 10 مارچ کو کٹھمنڈو پہنچے جہاں بقول ان کے انہوں نے پشوپتی مندر میں ہندو مذہب کے مطابق شادی کی۔ سیما اپنے چاروں بچوں کے ساتھ براستہ شارجہ کٹھمنڈو پہنچی تھیں۔

بھارتی ذرائع ابلاغ میں سیما کی کہانی کو انسانی معاملے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔لیکن قانونی ماہرین کے نزدیک یہ معاملہ لو اسٹوری اور انسانی ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی سلامتی اور بھارت میں بغیر جائز ویزا کے غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا معاملہ بھی ہے۔

بھارتی قانون کیا کہتا ہے؟

بھارت میں پاسپورٹ ایکٹ کے مطابق غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہونے والے شخص کو دو سال سے آٹھ سال تک کی قید اور 10 ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل عبد الرحمن ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ سیما حیدر کو فارنرز ایکٹ 1946 کے تحت غیر قانونی تارکِ وطن سمجھا جانا چاہیے۔ اگر کوئی شخص جائز ویزا اور پاسپورٹ کے بغیر ملک میں داخل ہو جائے تو اسے فوراً گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جاتا ہے اور سیکیورٹی ایجنسیاں اس معاملے کی ہر پہلو سے تفتیش کرتی ہیں۔

ان کے مطابق اگر کوئی پاکستانی شہری بھارت میں داخل ہوا ہے تو وہ معاملہ اور حساس ہو جاتا ہے۔ حکومت نے 2015 میں فارنرز ایکٹ میں ترمیم کرکے ایک آرڈر جاری کیا تھا جو اب قانون بن گیا ہے۔ اس کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کی اقلیت سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص اگر مذہب کی بنیاد پر جبر کی وجہ سے بھارت آئے تو اسے یہاں کی شہریت دی جا سکتی ہے۔ اس زمرے میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے کا معاملہ قومی سلامتی کا ہے اور ایسے معاملات میں جلد ضمانت نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اس معاملے میں عدالت نے چند روز کے اندر کیوں ضمانت دے دی اس پر اس وقت تک کچھ نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ عدالت کا آرڈر نہ دیکھ لیا جائے۔

قانون دانوں کے مطابق یہ معاملہ بھارت کی سلامتی اور آئینی انتظامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ معاملہ شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) کی بھی خلاف ورزی ہے۔

حالانکہ ابھی سی اے اے کے ضوابط طے نہیں پائے ہیں اور اس کے تحت تاحال کسی کو شہریت نہیں دی گئی ہے تاہم چونکہ مذکورہ خاتون بغیر ویزا کے بھارت میں داخل ہوئی ہیں اور مسلمان ہیں لہٰذا سی اے اے کے تحت بھی ان کو شہریت نہیں مل سکتی۔

سابق آئی پی ایس اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ایم ڈبلیو انصاری کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کے بارے میں بھارت کے قوانین بہت سخت ہیں اور ابھی تک ایسے معاملات میں ان کے مطابق ہی کارروائی کی جاتی رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوتا ہے تو قانونی کارروائی کرنے کے بعد فارنرز ایکٹ کی دفعہ تین کے تحت اس کو اس کے ملک واپس بھیج دیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں آئین کی دفعہ 258 اور پاسپورٹ ایکٹ میں بھی صراحت موجود ہے۔

ان کے مطابق سیما حیدر کے معاملے میں انتظامیہ کی جانب سے جو نرمی دکھائی جا رہی ہے وہ ناقابل فہم تو ہے ہی یہ بات ملکی سلامتی کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے۔

'معاملہ پاکستان سے جڑا ہو تو زیادہ توجہ ملتی ہے'

وہ بھی قانونی ماہرین کی طرح اس معاملے کو پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات جس نوعیت کے ہیں اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اس معاملے میں بہت ہی محتاط ہو کر جانچ کی جانی چاہیے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سیما حیدر نے درجہ پانچ تک تعلیم حاصل کی ہے لیکن وہ انگریزی اچھی بولتی ہیں اور کمپیوٹر کی ماہر ہیں۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس سے کئی پاسپورٹس، سم کارڈز اور سیل فونز برآمد ہوئے ہیں اور ان کے ایک بھائی پاکستانی آرمی میں ہیں۔ ان کے بقول ان حقائق کی روشنی میں یہ معاملہ بہت حساس ہو جاتا ہے اور بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ سیما حیدر کو قانون کے مطابق حراستی مرکز میں رکھا جانا چاہیے۔ لیکن وہ سچن کے گھر میں ان کی بیوی کی حیثیت سے رہ رہی ہیں اور میڈیا کو دھڑلے سے انٹرویو دے رہی ہیں۔

عبد الرحمن ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ" میں کئی برس تک ایسے معاملات میں وکیل کی حیثیت سے کام کر چکا ہوں لیکن میں نے ایسا کیس کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے متعدد پاکستانیوں کو جو کہ یہاں کی جیلوں میں بند رہے ہیں قانونی کارروائی کے بعد پاکستان بھجوایا ہے۔"

ان کے مطابق بہت سے پاکستانی اجمیر کا ویزا نہ ہونے کے باوجود اجمیر کی درگاہ کی زیارت کے لیے چلے جاتے ہیں اور گرفتار کیے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ برسوں تک جیل میں رہتے ہیں۔

اُنہوں نے سیما کے معاملے کو پراسرار قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس طرح ان کو ضمانت ملی، وہ میڈیا کو انٹرویو دے رہی ہیں اور اس معاملے کے قانونی پہلو پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی اور پھر نیپال میں شادی کا کوئی دستاویزی ثبوت بھی سامنے نہیں آیا ہے اس کے پیش نظر متعدد سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔

ایم ڈبلیو انصاری اس معاملے میں میڈیا کے رویے پر تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے چاہیے کہ جشن منانے کے بجائے محتاط رخ اپنائے۔ کیوں کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک غلطی کو چھپانے کے لیے کئی غلطیاں کرنی پڑتی ہیں۔ اس معاملے کی مکمل تفتیش ہونی چاہیے۔

وہ سوال کرتے ہیں کہ اگر سیما غیر مسلم ہوتیں اور سچن مسلمان ہوتے تو کیا اس وقت بھی میڈیا کا یہی رویہ ہوتا۔

قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ سیما حیدر نے نہ صرف بھارتی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ انہوں نے بھارت نیپال معاہدہ برائے امن و دوستی 1951 کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا ہے۔

نیپال کی ویزا پالیسی کے مطابق اگر کسی ملک کا کوئی شہری جائز پاسپورٹ کے ساتھ آتا ہے تو اسے نیپال میں 150 روز کا سیاحتی ویزا دیا جا سکتا ہے۔ بہت سے پاکستانی اور چینی شہری اس قانون کی آڑمیں بھارت آجاتے ہیں۔ سیما نے بھی وہی کیا۔ یاد رہے کہ بھارت اور نیپال کے درمیان کھلی سرحد ہے۔

ادھر غلام حیدر نے مکہ سے ایک ویڈیو جاری کرکے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی ہے کہ ان کی اہلیہ کو پاکستان واپس بھیج دیا جائے۔ انھوں نے سیما کو طلاق دینے کی تردید کی ہے۔ جب کہ سیما کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان نہیں جائیں گی۔ بقول ان کے اگر وہ گئیں تو انھیں رجم کر دیا جائے گا۔

سیما حیدر نے میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ بھارت صرف سچن کی محبت میں اور ان سے شادی کرکے گھر بسانے کی نیت سے آئی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی اور کوئی منشا نہیں ہے۔

جب کہ سچن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ غلط نیت سے آئی ہوتیں یا کوئی ایجنٹ ہوتیں تو اب تک سچ سامنے آگیا ہوتا۔ ان کے مطابق ہم دونوں میں محبت ہے اور اسی محبت کی وجہ سے وہ بھارت آئی ہیں۔
  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG