اِن دنوں، بھارتی حکمراں جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' ان مختلف شہروں کے نام بدلنے کی مہم پر کاربند ہے جو کسی مسلم شخصیت کے نام سے منسوب ہیں۔
اس سلسلے میں، اتر پردیش کے علاقے 'فیض آباد' کا نام بدل کر ضلع 'ایودھیا' رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ فیض آباد ضلع ہے اور ایودھیا اس کی حدود میں واقع ہے۔ ایودھیا اور فیض آباد کو جڑواں شہر کہا جاتا ہے۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ برس کی مانند اس برس بھی ہندوؤں کا تہوار دیوالی ایودھیا میں منایا اور تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اب فیض آباد کا نام ضلع ایودھیا ہوگا۔
انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ایودھیا میں ایک ایئرپورٹ تعمیر کیا جائے گا جو شری رام کے نام پر ہوگا، جبکہ ایک میڈیکل کالج بنایا جائے گا جو رام کے والد راجہ دشرتھ کے نام سے منسوب ہوگا۔
خیال رہے کہ ابھی کچھ دنوں قبل ہی انھوں نے الہ آباد کا نام بدل کر ’پریاگ راج‘ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر زبردست تنازع چھڑا ہوا ہے۔ خود الہ آباد کے غیر مسلم اسکالر اس تبدیلی کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پریاگ راج تو پہلے سے ہی تھا۔ اکبر بادشاہ نے الہ آباد شہر بسایا تھا۔ لیکن، انھوں نے پریاگ راج کا نام نہیں بدلا تھا۔ پریاگ راج الہ آباد کے نزدیک پہلے سے موجود ہے۔ انھوں نے نیا شہر بسا کر اس کا نام الہ آباد رکھا تھا۔
بہت سے بی جے پی نواز ہندوؤں کا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ نے بالکل صحیح قدم اٹھایا ہے۔ ان کے مطابق، ہندو تہذیب کے احیا کا کام شروع ہوا ہے اور اب ان تمام شہروں اور مقامات کے نام بدلنے کی ضرورت ہے، جو بقول ان کے، حملہ آوروں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں یا ان کی علامت ہیں۔
الہ آباد اور فیض آباد کے نام بدلنے کے بعد گجرات میں احمد آباد کا نام بدل کر کرناوتی رکھنے کی بھی مہم شروع ہو گئی ہے۔ پہلے بی جے پی کے ایک رہنما نے اس کی تجویز پیش کی اور اور اب ریاست کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی کہتے ہیں کہ ہم احمد آباد کا نام بدل کر کرناوتی کریں گے۔ خیال رہے کہ احمد آباد میں واقع بی جے پی کے دفتر پر جو بورڈ آویزاں ہے اس پر احمد آباد کے بجائے کرناوتی ہی لکھا ہے۔ بی جے پی کی تمام دفتری کارروائیوں میں کرناوتی ہی لکھا جاتا ہے۔
ادھر، 'شیو سینا' نے مہاراشٹر کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اورنگ آباد اور عثمان آباد کے نام بدلے۔ اس کا کہنا ہے کہ اورنگ آباد کو شمبھا جی نگر اور عثمان آباد کو دھارا شیو کیا جانا چاہیے۔ اسکا کہنا ہے کہ یہ ہمارا بہت پرانا مطالبہ ہے۔ اس کے مطابق، سابقہ کانگریسی حکومتوں نے مسلمانوں کو خوش رکھنے کے لیے ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ اب جبکہ ریاست میں بی جے پی شیو سینا کی حکومت ہے تو ان دونوں شہروں کے نام بدل دیے جانے چاہئیں۔
ہماچل پردیش کی بی جے پی حکومت نے گزشتہ ماہ تجویز پیش کی تھی کہ شملہ کا نام شیاملہ کیا جانا چاہیے۔ لیکن شہریوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ تجویز واپس لے لی گئی۔
ادھر، گجرات کے نائب وزیر اعلی نتن پٹیل کا کہنا ہے کہ احمد آباد نام غلامی کی علامت ہے۔ جبکہ کرناوتی ہماری عزت نفس اور غیرت مندی و خود داری اور ہماری ثقافت کی علامت ہے۔ 2019 کے انتخابات سے قبل احمد آباد کا نام بدل دیا جائے گا۔
اسی دوران، بعض طبقات کی جانب سے پٹنہ کا نام بدل کر پاٹلی پترا اور آگرہ کا نام اگروال کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ جنتا دل یو کے پون ورما کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار پٹنہ کا نام بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل حکومت نے نئی دہلی کے اورنگ زیب روڈ کا نام بدل کر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام روڈ کر دیا ہے۔
غیر جانبدار سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ناموں کی تبدیلی سے سیاسی مفاد پرستی کی بو آتی ہے۔ پون ورما کہتے ہیں کہ ہماری ثقافت اپنی جگہ پر لیکن اس طرح ہزاروں سال کی تاریخ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ناموں کی تبدیلی کی اس مہم پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔
متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ناموں کی تبدیلی سے ہندووں کے ایک طبقے میں اپنی تہذیب و ثقافت کے نام پر ایک غیر ضروری اور خطرناک احساس پیدا کیا جا رہا ہے جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بقائے باہم کے نظریے کے خلاف ہے۔
ان کے مطابق، ہندو تہذیب کا راگ اس لیے الاپا جا رہا ہے تاکہ 2019 کے عام انتخابات میں اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور ہندو غیرت و خود داری کے نام پر ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔
ناموں کی تبدیلی کی حمایت کرنے والے دلیل دیتے ہیں کہ جب مدراس کا نام بدل کر چنئی، کلکتہ کا کولکاتا، اڑیسہ کا اڈیشہ، بنگلور کا بنگلورو اور بامبے کا ممبئی رکھا گیا تو لوگوں نے مخالفت نہیں کی تھی۔ لیکن اب جبکہ ہندو وقار کی خاطر نام بدلے جا رہے ہیں تو اس کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے۔