جنوبی ایشیائی امور کے امریکی ماہر اسٹیفن کوہن چل بسے

اسٹیفن کوہن۔ فائل فوٹو

امریکہ میں جنوبی ایشیائی امور کے معروف ترین ماہرین میں شامل اسٹیفن کوہن 83 برس کی عمر میں چل بسے۔

’وائس آف امریکہ‘ کے قارئین، ناظرین اور سامعین کئی برس سے جنوبی ایشیائی امور کے مختلف پہلوؤں پر اسٹیفن کوہن کے بے لاگ اور ماہرانہ تبصروں سے مستفید ہوتے آئے ہیں۔

وہ خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے سیکیورٹی اور دفاعی امور پر تحقیق کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں سیکیورٹی امور کی پروفیسر کرسٹین فیئر نے ایک ٹوئٹ میں اسٹیفن کوہن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ’’مجھے ابھی ابھی بین کوہن سے معلوم ہوا ہے کہ جنوبی ایشیائی سیکیورٹی کی تدریس کے بانی اسٹیفن کوہن کا انتقال ہو گیا ہے۔ ہم سب لوگ جو اسی شعبے میں کام کرتے ہیں، ہمارا کیرئر بنانے میں ان کی مدد شامل تھی۔"

پروفیسر کرسٹین نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیائی سیکیورٹی کا شعبہ حقیقت میں اسٹیفن کوہن نے ہی قائم کیا۔ وہ ایک دوست اور استاد تھے۔ ان کے جانے سے ایک اور شمع بجھ گئی ہے۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ ’’اسٹیفن کوہن ایک مشفق دوست، دانشور اور استاد تھے جن کی گزشتہ پانچ دہائیوں سے جنوبی ایشیائی امور پر گہری نظر تھی۔ وہ اپنے تبصروں میں ہمیشہ غیر جانبدار اور فکر انگیز تھے۔‘‘

بھارت کے ممتاز سیاستدان اور کالم نگار سودھیندرا کلکرنی نے ٹوئٹ کیا ’’میں افسردہ ہوں کہ بھارت اور پاکستان کے بارے میں عظیم امریکی دانشور اب نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی کتاب Shooting for a Century میں اس حقیقی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ہمارے دونوں ملک 2047 سے بہت پہلے اپنی دشمنی ختم کر دیں گے جب یہ اپنی آزادی کے سو سال منا رہے ہوں گے۔‘‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما، فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ’’انتہائی قابل احترام دانشور اسٹیفن کوہن کا انتقال افسوسناک سانحہ ہے۔ ان کا تجزیہ حقائق پر مبنی ہوتا تھا۔‘‘

اسٹیفن کوہن نے حکومتی امور اور روسی امور میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد امریکہ کی معروف کولمبیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پرنسٹن یونیورسٹی اور نیو یارک یونیورسٹی میں پروفیسر رہے اور پھر معروف تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے سینئر محقق کے طور پر منسلک ہو گئے۔

اسٹیفن کوہن جنوبی ایشیائی سیکیورٹی امور کے بارے میں ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ ان میں (Shooting for a Century: The India-Pakistan Conundrum (2013 اور The Future of Pakistan (2011) بھی شامل تھیں۔

اس کے علاوہ وہ بھارت کی خارجہ پالیسی کے بارے میں 1978 میں India: Emerging Power کے عنوان سے ایک کتاب کے شریک مصنف تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی جب چین اور جاپان کے ماہرین بھارت کو اہم ملک نہیں سمجھتے تھے۔

بروکنگز انسٹی ٹیوٹ نے 2016 میں جنوبی ایشیا کے بارے میں ان کی تمام تصانیف اکٹھی کر کے South Asia Papers – A Critical Anthology of Writings کے نام سے شائع کیں۔