بلوچستان سے مزید 46 افراد لاپتا، بازیابی کی کوششیں جاری

فائل

وفاقی حکومت کی طرف سے لاپتا افراد کو بازیاب کرانے کےلئے قائم کردہ کمیشن کا 'وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز' کی طرف سے بائیکاٹ تاحال جاری ہے۔ کوئٹہ میں ہفتے کو ہونے والے کمیشن کے چھ روزہ اجلاس میں 'بلوچ مسنگ پرسنز' کی جانب سے کوئی بھی پیش نہیں ہوا۔
'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' کے ڈپٹی چئیرمین، ماما قدیر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لاپتا افراد کے لئے قائم کئے گئے اس کمیشن کے اجلاس میں وہ خود اور تنظیم کے باقی دوست کئی بار پیش ہو چکے ہیں۔

لیکن، اُنھوں نے کہا کہ کمیشن کے اجلاس میں 'وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز' کی شکایات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ بلکہ، اُن کے بقول، ''بعض اجلاسوں میں سیکورٹی اداروں کے نمائندے ہمارے نکتہ نظر کا مذاق اُڑاتے تھے، جس کی شکایت کمیشن کے سربراہ سے بھی کی گئی۔ اور اس کے ساتھ ہی، کمیشن میں ہماری تنظیم نے جن لوگوں کے لاپتا ہونے کی شکایات درج کرائی تھیں وہ آج تک بازیاب نہیں کرائے جاسکے۔ اس سے ہمیں مایوسی ہوئی۔ اس لئے، ہم نے کمیشن کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا جو آج بھی جاری ہے''۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ ''جون میں قائم ہونے والی صوبائی حکومت نے ہمارے لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے جاری احتجاج کا نوٹس لے کر ایک کمیٹی کے ذریعے ہم سے رابطہ کیا ہے''۔
بقول اُن کے، ''حکومت بلوچستان نے اس مسئلے کے حل کےلئے ایک کمیٹی بنائی ہے جس میں پانچ وزرا شامل ہیں؛ اور ایک حکومت کی حمایت کرنے والی، عوامی نیشنل پارٹی کے اصغر خان اچکزئی سمیت وزارت داخلہ و خزانہ کے حکام بھی شامل ہیں''۔

اُنھوں نے بتایا کہ کمیٹی سے ملاقات کے دوران انہیں حال ہی میں لاپتا 100 افراد کی فہرست بھی کمیٹی کے ارکان کے حوالے کر دی گئی ہے؛ جس کا کمیٹی کے ارکان نے جائزہ لینے اور نوجوانوں کو بازیاب کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ اب اگلے پیر کو کمیٹی کے ارکان ہمیں اپنی کاوشوں سے آگاہ کرینگے۔''

یہ امر قابل ذکر ہے کہ لاپتا افراد کو بازیاب کرانے کےلئے سپریم کورٹ نے چار مئی 2010 کو عدالت عظمیٰ کے ججوں پر مشتمل تین رُکنی کمیشن قائم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

حکام کے بقول، کمیشن کے پاس رواں سال کے نومبر تک جبر ی طور پر لاپتا 402 افراد کے کیسز رجسٹرڈ ہوئے تھے، جن میں سے کمیشن کی کوششوں سے گزشتہ 8 سالوں میں 158 افراد بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔ اور 30 افراد کی لاشیں ملی ہیں جو لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں؛ جبکہ 121 افراد کے کیسز قابل اعتماد اور واضح ثبوت نہ ہونے پر کمیشن کی فہرست سے خارج کر دئیے گئے۔
کوئٹہ میں جبری طور پر لاپتا ہونے والے افراد کا کھوج لگانے کےلئے قائم کمیشن کا اجلاس گزشتہ پیر کو شروع ہوا جو ہفتے کی شام تک جاری رہا۔

وزارت کے ایک ترجمان نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ کمیشن کے پاس پہلے سے 124 لاپتا افراد کے کیس موجود تھے جن میں یہاں ہونے والے چھ روزہ اجلاس میں کل 57 لاپتا افراد کے کیسز کو زیر غور لایا گیا، جبکہ کمیشن کے جبری طور پر لاپتا ہونے والے مزید 10 نئے کیس بھی رجسٹر ہوئے ہیں، جن پر آئندہ ماہ کوئٹہ میں ہونے والے اجلاس میں غور کیا جائیگا۔
بلوچستان کے لوگ اور صوبے کی سیاسی جماعتوں کےلئے جبری طور پر لاپتا ہونے والے افراد کا مسئلہ کافی حساس اور اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس صوبے میں وزارت داخلہ کے ذرائع کے بقول، اب تک تقریباً 1000 لوگوں کی لاشیں صوبے کے مختلف علاقوں سے برآمد کی گئی ہیں۔ صوبے کی سابقہ اور موجودہ حکومتیں یہ کوششیں کرتی رہی ہیں کہ یہ مسئلہ کسی بھی طریقے سے حل ہو سکے۔

تاہم، اب تک اس حوالے کی جانے والی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئیں، بلکہ
'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' کا دعویٰ ہے کہ رواں سال کے دوران مزید 100 سے زائد لوگوں کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے، جبکہ وزرات داخلہ کا کہنا ہے کہ مزید 46 افراد کے جبری طور پر لاپتا ہونے والے کیس اُن کے پاس درج ہو چکے ہیں۔