'مجھے یوں لگتا تھا کہ میری دنیا ختم ہوچکی ہے۔ اگر موجودہ معاشی حالات میں میرے کئی دوستوں کی طرح مجھے بھی نکال دیا گیا تو میں کرایہ کہاں سے دوں گا، بچوں کو کہاں سے کھلاؤں گا۔ میری زندگی ختم ہوجائے گی۔ اسی سوچ کے ساتھ ساتھ ایک دن مجھے دل میں تکلیف محسوس ہوئی اور جب مجھے ہوش آیا تو میرے دو اسٹنٹ ڈالے جاچکے تھے۔ میں اس دباؤ سے نکلنے کی کوشش کررہا ہوں لیکن کوئی میری مدد کو تیار نہیں۔'
یہ الفاظ ہیں لاہور کے ایک صحافی کے جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنی شریک حیات سے بھی اس بارے میں بات نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ پہلے ہی پریشان ہیں۔ وہ ان کو حوصلہ دیں یا خود حوصلہ مانگیں۔ ان کے بقول اب کام کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان میں حالیہ عرصے میں میڈیا اداروں میں مبینہ بحران کے باعث سیکڑوں صحافی بے روزگار ہو چکے ہیں جب کہ کئی صحافیوں کی تنخواہوں میں کٹوتی جب کہ سالہا سال سے تنخواہوں میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہوا۔
کراچی کے 'انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن' کے سینٹر آف ایکسیلینس ان جرنلزم (سی ای جے) نے پاکستان میں صحافیوں کی ذہنی صحت سے متعلق ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے لیے چیلنجز اور دباؤ بڑھ رہا ہے۔
تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ صحافی شدید ذہنی دباؤ میں کام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ جو تھیراپی کے لیے آرہے تھے وہ کام کرنے کے قابل نہیں تھے، ان کی حالت اس قدر خراب تھی کہ وہ خود کو بالکل سنبھالنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ بعض صحافی ایسے بریکنگ پوائنٹ پر پہنچ چکے ہیں جہاں وہ کسی بھی وقت مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
سی ای جے نے اپنی نوعیت کی یہ پہلی تحقیق کی ہے جس میں صحافیوں کی ذہنی صلاحیت جانچنے کے لیے تین سال کے نتائج مرتب کیے ہیں۔
اس تحقیق کی مصنف ڈاکٹر آشا بیدار اور سی ای جے کے ڈائریکٹر کمال صدیقی نے فیس بک لائیو سیشن کے ذریعے اس تحقیق کے نتائج سے آگاہ کیا۔
یہ تحقیق کرنے والی ڈاکٹر آشا بیدار آسٹریلیا کی میلبرن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے ساتھ ایک کلینیکل سائیکالوجسٹ بھی ہیں۔ انہیں اس شعبہ میں 18 برس سے زیادہ کا تجربہ ہے۔
'صحافیوں کے لیے چیلنجز بڑھ رہے ہیں'
فیس بک لائیو سیشن میں کمال صدیقی نے کہا کہ صحافیوں پر ذہنی دباؤ کا یہ مسئلہ ختم ہونے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے خیال میں صحافیوں کے لیے چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔ دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کا نوجوانوں یا بوڑھوں یا آپ کے کام کے ذرائع سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس پیشے میں جب لوگ بریکنگ پوائنٹ پر پہنچتے ہیں تو وہ مدد مانگتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سی ای جے نے جرمن نشریاتی ادارے کے تعاون سے میڈیا ورکرز کے لیے مفت خفیہ مشاورت سروس 2018 میں شروع کی تھی۔ اس کے چار کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر آشا بدر، ماہ نور شیخ، تابندہ افضل اور زینب باری نے پاکستان بھر میں 107 صحافیوں کے ساتھ 600 سے زائد گھنٹے سیشنز کیے۔ ان میں اکثریت کراچی کے صحافیوں کی ہے جن کی تعداد 90 تھی۔
ڈاکٹر آشا کے مطابق اس تحقیق کے دوران صحافیوں کی اکثریت دو سے سات سیشنز کے لیے آتی تھی۔ ان میں سب سے بڑا گروپ 21-30 سال کی عمر کے درمیان کا تھا۔
تحقیق کے دوران کراچی کے آدھے صحافیوں کو اینگزائٹی کی تشخیص ہوئی۔ خواتین صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ مردوں نے اس تحقیق میں حصہ لیا۔ دباؤ کے شکار زیادہ ترصحافی ڈیجیٹل یا آن لائن شعبوں میں کام کر رہے تھے۔ بیشتر صحافی کل وقتی کام کر رہے تھے۔
تحقیق کے دوران ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے سب ایڈیٹرز، رپورٹرز اور نیوز روم مینیجرز نے مدد مانگی۔ لیکن ان کے ساتھ ٹی وی کے اینکرز بھی مددحاصل کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان میں سے زیادہ تر صحافی گزشتہ ایک سے پانچ سال کے عرصے سے نوکری کر رہے تھے۔
صحافیوں کے لیے اس سینٹر میں دی جانے والے مشاورت کی سروس خفیہ تھی۔ تحقیق کے دوران ایک بڑا چیلنج یہ بھی تھا کہ تمام صحافیوں کی شناخت کو مخفی رکھا جائے حتیٰ کہ کلینک آتے اور جاتے ہوئے بھی صحافیوں کا ایک دوسرے سے ٹکراؤ نہ ہو کیونکہ اس سے صحافیوں کا اعتماد مجروح ہونے کا خدشہ تھا۔
'کسی کو پتا چلا کہ ذہنی علاج کرا رہا ہوں تو نوکری چلی جائے گی'
آشا بیدار کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی ذہنی حالت جانچنے کے لیے سیشنز کے دوران مختلف صحافیوں کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو معلوم ہوا کہ میں ذہنی علاج کروا رہا ہوں تو مجھے نوکری سے نکال دیا جائے گا۔ بعض صحافیوں نے اپنے دفتر اور کام کرنے کی جگہ پر کھلے عام اس بارے میں بات کی اور انہیں اس کا نقصان اٹھانا پڑا کیوں کہ اُن کے بقول پاکستان میں ذہنی صحت کے بارے میں بات کرنا ابھی بھی عجیب سمجھا جاتا ہے۔
آشا بیدار کا کہنا تھا کہ بہت سے صحافیوں کو ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کونسلنگ کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ دباؤ، صدمے اور مصیبتوں سے دوچار ہیں اور زیادہ تر صحافیوں کا ایسے ہی افراد سے واسطہ پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صحافی اب اس دباؤ کے عادی ہو گئے ہیں اور ملازمت میں دباؤ کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ لیکن جب یہ دباؤ پیچیدہ ہو جاتا ہے اور افسردہ علامات سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں تو اس وقت بہت زیادہ بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔
اُن کے بقول یہ ان کے ذہن پر بہت برا اثر ڈالتا ہے۔ کچھ لوگ جو تھیراپی کے لیے آ رہے تھے وہ کام کرنے کے قابل نہیں تھے، ان میں سے کچھ بالکل بھی سنبھلنے کے قابل نہیں تھے۔ اس مرحلے پر لوگوں کو احساس ہوا کہ انہیں بحران کی حالت میں مدد کی ضرورت ہے لیکن انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن جب تک انہیں احساس نہیں ہوتا وہ خود پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔ اس دوران انہیں ڈپریشن اور اپنے ہی خاندان کے ساتھ تنازعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
'تشدد پر مبنی خبروں کی کوریج کرنے والے صحافی بھی متاثر ہو رہے ہیں'
آئی بی اے کے سینٹر آف ایکسیلینس فار جرنلزم کے ڈائریکٹر کمال صدیقی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس تحقیق کے دوران ہمیں صحافیوں پر دباؤ کی مختلف وجوہات سے آگاہی حاصل ہوئی۔ بہت سے صحافی جو تشدد پر مبنی خبروں کی کوریج کرتے کرتے ہیں، وہ وائلنس دیکھ دیکھ کر خود بھی مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔
اُن کے بقول جاب سیکیورٹی، کام کی جگہ پر ہراسانی، یہ سب وہ مختلف وجوہات ہیں جن کی وجہ سے صحافیوں کے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کمال صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں کے لیے اتنا بڑا پراجیکٹ پہلے کبھی مکمل نہیں کیا گیا اور اس میں کسی صحافی کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ کسی صحافی کی مشکلات کو عام نہیں کیا گیا۔ اس تحقیق کے ذریعے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت سے صحافیوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ بریکنگ پوائنٹ پر پہنچ چکے ہیں جہاں وہ کسی بھی وقت اس ذہنی دباؤ کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرون ممالک اور کئی بڑے اداروں میں اپنے ورکرز کی ذہنی ساکھ جانچنے کے لیے کوئی نظام موجود ہوتا ہے لیکن پاکستان میں کسی میڈیا ہاؤس میں اپنے ورکرز کے لیے ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے اچانک یہ صحافی کسی بیماری میں مبتلا ہو کر زندگی تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی تحقیق حکومت اور مختلف میڈیا ہاؤسز کے ساتھ شئیر کی ہے۔ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ پہلی مرتبہ ذہنی صحت کے حوالے سے بات کرنے کا آغاز ہو رہا ہے۔
'صحافیوں کا معاشی قتل صحت متاثر ہونے کا سبب ہے'
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق صدر افضل بٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2017 کے بعد سے صحافیوں کا 'معاشی قتل' شدت اختیار کر گیا ہے۔
اُن کے بقول ان تین سے چار برسوں کے دوران 10 ہزار سے زائد صحافیوں کو ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔ ان کے یوٹیوب چینلز بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
افضل بٹ کہتے ہیں کہ راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں صحافیوں کو دن دیہاڑے فائرنگ، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کوئی ایک بھی ملزم نہیں پکڑا گیا۔ ان کے بقول سنسر شپ کے نام پر ایک تقریر پر سینئر صحافیوں کو گھر بٹھا دیا گیا۔ اشتہارات کو ہتھیار کے طور استعمال کرتے ہوئے میڈیا مالکان کو دھمکایا جا رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سب صحافی خود کو انتہائی غیر محفوظ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی خبر ارباب اختیار کو پسند نہ آئی تو ان پر حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ انہیں نوکری سے بھی نکالا جا سکتا ہے، انہیں گھر بٹھایا جاسکتا ہے، ان کے چینل پر پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ لہذا سب صحافی ایک غیر یقینی صورتِ حال سے گزر رہے ہیں اور ایسے میں ذہنی دباؤ ان کے لیے مختلف بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔
سینئر صحافی اور اخبار 'بزنس ریکارڈر' سے منسلک وسیم اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران صحافتی شعبے میں ہزاروں افراد شامل ہوئے اور اتنی تیزی سے ان کی شمولیت کی وجہ سے ان کی تربیت کا نظام وضع نہیں کیا جا سکا جس کی ضرورت تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
وسیم اقبال کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں ہر چھ ماہ کے بعد یونیورسٹیاں ہزاروں افراد کو جاب مارکیٹ میں داخل کر دیتی ہیں لیکن پاکستان میں ہونے والی معاشی تنزلی کی وجہ سے اس قدر ملازمتیں موجود نہیں۔ لیکن ان افراد نے کہیں تو ملازمت کرنی ہے۔ اس لیے یہ بہت کم تنخواہوں پر کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور اس صورتِ حال میں پہلے سے کام کرنے والے ملازمین کی ملازمتیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں جو اچھے پیسے لے رہے ہوتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے میں اس شعبہ کو زندگی کے کئی سال دینے والے صحافیوں کے سر پر یہ تلوار لٹکی رہتی ہے کہ کسی بھی وقت انہیں فارغ کر کے اسی تنخواہ جتنے پیسوں میں تین یا چار نوجوانوں کو بھرتی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی باقاعدہ مثالیں بھی موجود ہیں جہاں ایک سینئر کو فارغ کر کے کئی نوجوانوں کو موقع دیا گیا۔ اس سے صحافت کا معیار بہتر نہیں ہوتا لیکن بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دوسری جانب حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستانی نیوز چینلز کا بزنس ماڈل جدید میڈیا سے ہم آہنگ نہیں ہے جس میں بہتری کے لیے حکومت کام کر رہی ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلات و نشریات فواد چوہدری کئی مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں پاکستانی میڈیا سرکاری اشتہارات پر اپنا انحصار کم کر کے آمدنی کے دیگر ذرائع تلاش کرے۔
فواد چوہدری کا یہ مؤقف رہا ہے کہ میڈیا اداروں میں برطرفیوں کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ میڈیا اداروں کی اپنی پالیسی ہے ۔
اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کا مجوزہ بل پاکستان میں صحافیوں کی مشکلات کم کرنے اور اُن کے روزگار کا تحفظ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
البتہ پاکستان میں صحافی برادری مجوزہ بل کو میڈیا پر مزید قدغنیں لگانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر چکی ہیں۔